Advertisement
Advertisement

کتاب”گلزارِ اردو”برائے نویں جماعت۔

Advertisement

تعارف مصنف:

سید علی سردار جعفری 1913ء میں بلرام پور، ضلع گونڈہ اتر پردیش میں پیدا ہوۓ۰لکھنو دلی اور علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی ۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی ترقی پسند تحریک میں شامل ہو گۓ لكهنو سے ایک رسالہ ادب نکلا ممبئی میں مستقل سکونت اختیار کی اور وہیں 2000ء میں ان کا انتقال ہوا۔

سردار جعفری کی شاعری میں سیاسی قومی شعور قوت اور توانائی امنگ اور عوامی مسائل کی عکاسی ملتی ہے اور انسان دوستی کے جذبات بھی نمایاں ہیں ۔انھوں نے ظلم اور ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائ۔طبقاتی کشمکش ان کی نظموں کا خاص موضوع ہے نئی دنیا کو سلام ، ‘خون کی لکیر ‘، ‘ایشیاء جاگ اٹھا’، ‘امن کا ستارہ’ ، ‘پتھر کی دیوار ‘ اور ایک خواب اور ان کے شاعری مجموعے ہیں ۔ نثر میں بھی ان کی کئی کتابیں ہیں ان میں “ترکی پسند ادب” ،”لکھنؤ کی پانچ راتیں” اور “پیغمبران سخن” معروف ہیں۔

Advertisement

نظم میرا سفر کی تشریح:

پھر اک دن ایسا آئے گا
آنکھوں کے دئیے بجھ جائیں گے
ہاتھوں کے کنول کمھلائیں گے
اور برگ زباں سے نطق و صدا
کی ہر تتلی اڑ جائے گی

یہ اشعار علی سردار جعفری کی نظم “میرا سفر” سے لیے گئے ہیں جن میں شاعر اپنے سفر کی روداد اور اس کی نوعیت بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ عنقریب ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ جب روشن آنکھوں کے خواب چھن جائیں گے اور ان میں روشن دیے بجھا دیے جائیں گے۔ ان ہاتھوں کے پھولوں کو کملا دیا جائے گا۔ہر وہ پھول جس کی زبان سے کوئی بات کوئی احتجاج،نعرہ و صدا جاری ہے اس کو خاموش کر دیا جائے گا۔خوابوں کی ہر تتلی اڑا دی جائے گی۔

Advertisement
اک کالے سمندر کی تہ میں
کلیوں کی طرح سے کھلتی ہوئی
پھولوں کی طرح سے ہنستی ہوئی
ساری شکلیں کھو جائیں گی
خوں کی گردش دل کی دھڑکن
سب راگنیاں سو جائیں گی

شاعر اس دنیا کو ایک کالے سمندر سے تشبیہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اسی کالے سمندر کی تہہ میں ایک روز کلیوں کی طرح کھلکھلاتے ہوئے یہ چہرے اور پھولوں کی کلیوں کی سی مسکراہٹ والی یہ سب شکلیں کھو جائیں گیں۔ان کی خون کی گردش اور دلوں کی دھڑکن تھم جائے گی اور سب راگنیوں کے راگ بند ہو جائیں گے۔

اور نیلی فضا کی مخمل پر
ہنستی ہوئی ہیرے کی یہ کنی
یہ میری جنت میری زمیں
اس کی صبحیں اس کی شامیں
بے جانے ہوئے بے سمجھے ہوئے
اک مشت غبار انساں پر
شبنم کی طرح رو جائیں گی
ہر چیز بھلا دی جائے گی
یادوں کے حسیں بت خانے سے
ہر چیز اٹھا دی جائے گی

شاعر کہتا ہے کہ مخمل جیسی تنی ہوئی نیلی فضا یعنی اس آسمان کے نیچے خوبصورت ہیرے کی کنی کی طرح روشن اور جگمگاتی ہوئی میری جنت نما سر زمین اور اس سر زمین کی روشن صبحیں اور شامیں بغیر کچھ معلوم کیے بغیر کچھ جانے اور سمجھے اس مٹی کے انسان پر اپنا غبار شبنم کی طرح بہا دیں گیں۔یہ زمین و آسمان سب کچھ بھلا دے گا اور ہر چیز ختم کر دی جائے گی۔

Advertisement
پھر کوئی نہیں یہ پوچھے گا
سردارؔ کہاں ہے محفل میں
لیکن میں یہاں پھر آؤں گا
بچوں کے دہن سے بولوں گا
چڑیوں کی زباں سے گاؤں گا
جب بیج ہنسیں گے دھرتی میں
اور کونپلیں اپنی انگلی سے
مٹی کی تہوں کو چھیڑیں گی
میں پتی پتی کلی کلی
اپنی آنکھیں پھر کھولوں گا
سر سبز ہتھیلی پر لے کر
شبنم کے قطرے تولوں گا
میں رنگ حنا آہنگ غزل
انداز سخن بن جاؤں گا

ان اشعار میں شاعر نے ذو معنی انداز پیدا کرتے ہوئے خود کو کہا نی میں سردار کے کرادر میں بھی پیش کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اب کوئی نہیں پوچھے گا کہ کہانی کا سردار کہاں ہے دوسرے معنوں میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرتے ہوئے خود کو بھی سردار کہہ رہا ہے۔لیکن شاعر کہتا ہے کہ لیکن میں پھر سے ضرور لوٹوں گا۔بچوں کی منھ سے تم میری آواز سنو گے،چڑیوں کی چہچہاہٹ میں میری آواز ہوگی۔جب اس دھرتی سے نکلتے ہوئے بیچ ہنسیں گیں اور اس دھرتی سے ان بیچوں کی ہنسی کی صورت میں کونپلیں پھوٹیں گیں۔ یہ کونپلیں اپنی نرم و نازک انگلیوں سے مٹی کی تہہ کو خود سے ہٹاتے ہوئے اپنی پتی پتی اور اک اک کلی کو باہر لے کر نکلیں گیں اور اپنی سبز ہتھیلی پر یہ شبنم کے قطروں کو جگہ دیں گیں۔ایسے میں،میں ان کی ہتھیلی میں حنا کا رنگ بن کر ابھروں گا اور ان کے بات کرنے کا انداز میرا ہو گا ان کی زبان پر میری آواز اور ترانے ہوں گے۔

رخسار عروس نو کی طرح
ہر آنچل سے چھن جاؤں گا
جاڑوں کی ہوائیں دامن میں
جب فصل خزاں کو لائیں گی
رہ رو کے جواں قدموں کے تلے
سوکھے ہوئے پتوں سے میرے
ہنسنے کی صدائیں آئیں گی

ان اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ میں ہر آنچل سے سرخی بن کر چھلکوں گا لیکن جب جاڑوں کی ہوائیں میرے دامن میں اتریں گیں تو وہ خزاں کو بھی اپنے ساتھ لائیں گیں۔ایسے میں جب میں خزاں کے پتے بن کر زمین پر بکھر جاؤں گا تو جوان قدموں کے نیچے پسنے والے پتوں کی آواز میں تم میری ہنسی کی پکار کو سنو گے۔

دھرتی کی سنہری سب ندیاں
آکاش کی نیلی سب جھیلیں
ہستی سے مری بھر جائیں گی
اور سارا زمانہ دیکھے گا
ہر قصہ مرا افسانہ ہے
ہر عاشق ہے سردارؔ یہاں
ہر معشوقہ سلطانہؔ ہے

ان اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ اس سر زمین کی تمام سنہری ندیاں اور نیلا جھیل نما آسمان یہ سب پھر سے میرے وجود میرے ہونے کے احساس سے پر ہو جائیں گے۔ یہ دنیا یہ سارا زمانہ سب لوگ میرا ذکر سنیں گے اور یہاں کا ہر قصہ میرا ہی افسانہ لیے ہوئے ہو گا۔ اس دنیا کے ہر عاشق میں، میں موجود ہوں یہاں کا ہر عاشق سردار ہو گا اور ہر عاشق کی معشوقہ اس کی سلطانہ ہو گی۔ یہ ہماری سلطنت ہوگی۔

میں ایک گریزاں لمحہ ہوں
ایام کے افسوں خانے میں
میں ایک تڑپتا قطرہ ہوں
مصروف سفر جو رہتا ہے
ماضی کی صراحی کے دل سے
مستقبل کے پیمانے میں
میں سوتا ہوں اور جاگتا ہوں
اور جاگ کے پھر سو جاتا ہوں
صدیوں کا پرانا کھیل ہوں میں
میں مر کے امر ہو جاتا ہوں

ان اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ میں اس دنیا کے گزرتے لمحات میں ایک گزرا ہوا لمحہ ہوں۔میں ایک ایسا تڑپتا ہوا قطرہ ہوں جو ہر وقت کسی منزل کی جانب رواں اور سفر میں مصروف رہتا ہے۔میں سو کر جاگتا ہوں اور جاگ کر پھر سے سو جاتا ہوں۔یہ صدیوں پرانا کھیل یوں ہی جاری و ساری ہے۔اسی چکرویو اور کھیل میں کئی دفعہ میں مر جاتا ہوں اور مر کر دوبارہ سے زندہ بھی ہو جاتا ہوں۔

Advertisement

سوالوں کے جواب لکھیے:

سوال نمبر01:اس نظم میں شاعر نے زندگی کی کس حقیقت کو واضح کیا ہے؟

اس نظم میں شاعر نے زندگی کے فنا و بقا کے فلسفے کو بیان کرتے ہوئے زندگی کے مسلسل تغیر کو دکھایا ہے۔

سوال نمبر02:

ہر عاشق ہے سردار یہاں
ہر معشوقہ سلطانہ ہے

درج بالا شعر میں سردار اور سلطانہ کون ہیں؟شاعر نے ان دو ناموں کو بیان کر کے کیا کہنے کی کوشش کی ہے؟

شاعر نے سردار کی صورت میں اپنا تخلص بھی بیان کیا ہے اور خود کو اس کہانی کا اہم کرادر بھی کہا ہے اور سردار اور سلطانہ کی صورت میں شاعر نے اس کہانی میں زندگی کے ہر کرادر کو بھی امر کر کے دکھا یا ہے۔ یہ کہانی ہر انسان کی بھی آواز ہے اس دنیا کا ہر عاشق یہاں کا سردار اور ہر معشوقہ سلطانہ ہے۔

سوال نمبر03:یہ نظم آپ کو کیسی لگی، لکھیے۔

یہ نظم ایک بہترین نظم ہے جس کے ذریعے شاعر نے ایک انسان کے اندر کی آواز اور پکار کو مختلف مناظر اور مظاہر کی صورت میں جلوہ گر ہوتے دکھایا ہے۔

Advertisement