Advertisement
  • کتاب “سب رنگ” برائے نویں جماعت
  • سبق نمبر08:نظم
  • شاعر کا نام: علی سردار جعفری
  • نظم کا نام: نوالہ

تعارف شاعر:

علی سردار جعفری اتر پردیش کے قصبہ بلرام پور میں پیدا ہوئے۔ لکھنؤ اور علی گڑھ میں تعلیم پائی۔ ان کا شماراردو کے اہم شاعروں اور ادیبوں میں ہوتا ہے ۔ انھوں نے ترقی پسند تحر یک کو پروان چڑھانے میں اہم رول ادا کیا۔

Advertisement

علی سردار جعفری کا شمار اردو کے ممتاز ترقی پسنداد بیوں میں ہوتا ہے۔ خون کی لکیر ، نی دنیا کوسلام پتھر کی دیوار، ایک خواب اور ان کے اہم شعری مجموعے ہیں۔ ترقی پسندادب اور اقبال شناسی ان کی کتابیں ہیں ۔ انھوں نے ایک رسالہ گفتگو جاری کیا اور بیرونی ملکوں کے سفر کیے۔

ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں ‘ گیان پیٹھ ایوارڈ اور اقبال سمان کے علاوہ کئی اہم انعامات سے بھی نوازا گیا۔

نظم نوالہ کی تشریح

ماں ہے ریشم کے کارخانےمیں
باپ مصروف سوتی مل میں ہے

یہ شعر علی سردار جعفری کی نظم “نوالا” سے لیا گیا ہے۔علی سردار جعفری اپنی نظم میں ترقی پسند فکر بیان کرتے ہیں۔ اس نظم نیں میں ایک مزدور اور اس کے بچے کی زندگی کے عکس کو پیش کیا گیا ہے۔ شاعر اس شعر میں کہتا ہے کہ وہ بچہ جس کی ماں ایک ریشم کے کارخانےمیں مزدوری پر معمور ہے اور اس کا باپ سوتی مل میں اپنے کام پر مصروف ہے۔ دونوں مزدوری کی چکی میں پس رہے ہیں۔

کوکھ سے ماں کی جب سے نکلا ہے
بچہ کھولی کے کالے دل میں ہے

شاعر کہتا ہے کہ وہ بچہ جس کے ماں اور باپ دونوں مزدور ہیں جب اس نے اپنی ماں کی کوکھ سے جنم لیا تو وہ کسی محل میں اور شاندار مستقبل لے کر پیدا نہیں ہوا بلکہ اس کی زندگی کی ابتداء ہی ایک چھوٹی سی جھونپڑی نما کھولی کے کالے دل میں ہوئی۔

Advertisement
جب یہاں سے نکل کے جائے گا
کارخانوں کے کام آئے گا

اس شعر میں شاعر اس بچے کی مستقبل کی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ بچے کی جو موجودہ صورتحال ہے تو یہاں سے نکلنے کے بعد اس کی زندگی اسے کسی نہ کسی کارخانے میں مزدور بنا کر جھونک دے گی۔

اپنے مجبور پیٹ کی خاطر
بھوک سرمائے کی بڑھائے گا

شاعر اس شعر میں کہتا ہے کہ وہ بچہ نہ چاہتے ہوئے بھی سپنے بھوکے پیٹ کی خاطر یہ کام کرنے پر مجبور ہو گا اور اس کی یہ بھوک اس سے کام لے کر سرمایہ داروں کے سرمائے کو اور بڑھا دے گی۔

ہاتھ سونے کے پھول اگلیں گے
جسم چاندی کا دھن لٹائے گا

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ وہ بچہ جو دن رات کارخانوں میں محنت کرے گا اس کے ہاتھوں کی یہ محنے سرمایہ داروں کے لیے سونے کے پھول ثابت ہوگی اور اس محنت میں بہنے والا اس کا پسینہ ان لوگوں کے لیےچاندی کے دھن جیسا ہو گا۔

کھڑکیاں ہوں گی بینک کی روشن
خون اس کا دئیے جلائے گا

شاعر کہتا ہے کہ وہ محنت جس میں اس مزدور کی محنت کا رنگ اس کا خون پسینہ شامل ہوگا ۔اس کا اسے چنداں فائدہ نہیں ہوگا الٹا اس کی یہ محنت امیروں کے بینک کو مزید دھن سے بھرے گی جبکہ مزدوروں کے خون پسینے سے وہ لوگ اپنے دیے روشن کریں گے۔

یہ جو ننھا ہے بھولا بھالا ہے
صرف سرمائے کا نوالا ہے

شاعر کہتا ہے کہ وہ معصوم ننھا اور بھولا بھالا سا بچہ جو اپنی بھوک کے ہاتھوں تنگ آکر سرمایہ دارانہ نظام کی دلدل میں دھنس گیا۔ساری محنت اس کی مگر اس کی محنت کا صلہ صرف سرمایہ داروں کو ہے۔ وہ محض بھوک کے نوالے کی بھینٹ چڑھ گیا۔

Advertisement
پوچھتی ہے یہ اس کی خاموشی
کوئی مجھ کو بچانے والا ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اس معصوم کی خاموشی یہ سوال کرتی نظر آتی ہے کہ وہ جس دلدل میں دھنس چکا ہے کیا اسے وہاں سے کوئی نکالنے یا بچانے والا ہے یا نہیں کیونکہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔

سوچیے اور بتایئے:-

نظم کے ابتدائی دوشعروں میں شاعر نے ماں ، باپ اور بچے کی کیا حالت بیان کی ہے؟

نظم کے ابتدائی اشعار میں بچے کی ماں کو ریشم کے کارخانےجبکہ باپ کو سوتی مل میں مصروف دکھایا گیا ہے۔ بچہ ماں کی کوکھ سے ایک کوٹھری کے کالے دل میں جنم لیتا ہے۔

بچے کے کارخانوں میں کام آنے سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

بچے کے کارخانے میں کام آنے سے مراد ہے کہ ماں باپ کی طرح وہ بھی اس سرمایہ دارانہ نظام کی بھینٹ چڑھتا جائے گا اور بڑا ہو کر کارخانے میں مزدوری کرے گا۔

بینک کی کھڑکیاں روشن ہونے کا کیا مطلب ہے؟

بینک کی کھڑکیاں روشن ہونے سے مراد ہے کہ سرمویہ داروں کا سرمایہ مزید بڑھتا جائے گا۔

شاعر نے بچے کو خونیں سرمایے کا نوالا کیوں کہا ہے؟

کیونکہ یہ بچہ اس نظام کی بھینٹ چڑھ چکا ہے جہاں غریب،غریب سے غریب تر اور امیر ،امیر سے امیر تر ہوتا جائے گا۔ وہ بچہ خود کو سرمایہ دارانہ نظام کے چکر سے کبھی نکال نہیں پائے گا۔

Advertisement

کوئی مجھ کو بچانے والا ہے ، کہہ کر شاعر نے ہمارے سماج کی کن کمزوریوں کی طرف اشارہ کیا؟

کوئی مجھ کو بچانے والا کہہ کر شاعر نے سماج کی ناانصافیوں،سرمایہ دارانہ نظام کی بالا دستیوں اور بچوں سے لیے جانے والی جبری مشقت کی نشان دہی کی ہے۔