افسانہ کی تعریف ، اجزائے ترکیبی ، روایت، افسانچہ کی تعریف اور روایت

0
  • اردو کی ادبی اصناف (ثانوی و اعلیٰ جماعت کے لیے)
  • سبق نمبر02:نثری اصناف

افسانہ کی تعریف

اردو کی بیانیہ اصناف میں سب سے زیادہ مقبولیت افسانے کو ملی۔ سو برس سے کم کی مدت میں اس صنف نے غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ افسانے کے ذریعے فرد کی زندگی کے کسی ایک پہلو، کسی ایک نفسیاتی یا جذباتی کیفیت، یا کسی ایک تجربے کو افسانے کا موضوع بنایا جاتا ہے۔

افسانے کی کوئی قطعی تعریف ممکن نہیں ہے۔ اس کی متعدد تعریفیں کی گئی ہیں مثلاً یہ کہ افسانہ ایک ایسی نثری کہانی ہے جسے پڑھنے کے لیے آدھے گھنٹے کا وقت لگے۔ کسی کا کہنا ہے کہ افسانہ کی طوالت اتنی ہونی چاہیے کہ ایک ہی نشست میں پڑھا جا سکے۔ کسی کا خیال ہے کہ افسانہ کسی ایک واقعے کا بیان ہوتا ہے جس میں ابتداء وسط اور انجام ہو۔

ان میں سے ہر تعریف میں افسانے کی کسی ایک اہم خصوصیت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ماہرین ادب نے اس کی جو تعریفیں بیان کی ہیں، ان کی رو سے افسانہ ایک تخیلی مختصر نثری بیانیہ ہے۔ افسانے میں واقعات کا بیان، کرداروں کی گفتگو اور منظر و ماحول کی پیش کش بہت نپی تلی اور تاثر سے بھر پور ہونی چاہیے۔ یہاں تاثر سے مراد وحدت تاثر ہے۔

افسانے کے اجزائے ترکیبی

پلاٹ، کردار، زمان و مکاں ، مرکزی خیال اور اسلوب افسانے کے فن میں خاص اہمیت ہے۔

پلاٹ:

اردو میں بغیر پلاٹ کے افسانے بھی لکھے گئے ہیں لیکن زیادہ تر افسانے کسی پلاٹ ہی کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں۔ افسانے میں انھیں واقعات یا واقعے کو پیش کیا جا تا ہے جو مجموعی تاثر کو نمایاں کرنے میں معاون ہوں۔ یہ مجموعی تاثر پلاٹ یا ماجرے کے واقعات کے منطقی ربط سے پیدا ہوتا ہے جو ان کے آغاز ، وسط اور انجام کی تشکیل ہے۔

کردار:

افسانے میں کردار کی شخصیت کے کچھ ہی پہلو دکھائے جا سکتے ہیں، اس لیے افسانے کی کامیابی کے لیے لازمی ہے کہ اس کی ابتدا ہی میں کردار کا واضح نقش ابھر آئے۔ کوئی بھی اچھا افسانہ کردار نگاری کے فن پر گرفت کے بغیر وجود میں نہیں آتا۔ اردو کے مشہور افسانے بالعموم کرداروں کے افسانے ہیں۔یہاں پر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ افسانے کے کردار کیسے ہوں؟ افسانے میں کردار ایک مخصوص حد بندی میں ہی حرکت و عمل کر سکتے ہیں۔ ان کے فکری اور جذباتی میلانات بھی افسانے کے مرکزی موضوع کے تابع ہوتے ہیں۔ اس لیے قابل توجہ کردار وہی ہے جو ان تمام پابندیوں کے باوجود قاری کے دل و دماغ پر ایک گہرا نقش چھوڑ نے میں کامیاب ہو جائے۔

زمان و مکاں:

ہر واقعہ اور ہر انسانی تجربہ وقت کے کسی نہ کسی مخصوص دائرے اور مکان یا مقام کے کسی نہ کسی معینہ پس منظر میں جنم لیتا ہے۔ اچھا افسانہ نگار وہی ہے جو ماحول کی جزئیات پر گہری نظر رکھتا ہو اور کرداروں کے زمانی پس منظر سے اچھی طرح آگاہ ہو۔ اس کے علاوہ افسانے میں منظر نگاری اور جذبات نگاری کی بھی اہمیت ہے۔

مرکزی خیال:

ہر اچھا افسانہ کسی نہ کسی مرکزی خیال کے گرد گھومتا ہے۔ لکھنے والے کے تصور حیات و کائنات یا زندگی کی طرف اس کے رویے کی نشاندہی بھی افسانے کے مرکزی خیال سے ہوتی ہے۔ مرکزی خیال میں جتنی گہرائی ہوگی ، افسانے میں اتنی ہی وسعت پیدا ہوگی۔

اسلوب:

افسانہ اختصار و ایجاز کافن ہے جسے افسانوی زبان میں ادا کیا جاتا ہے۔ افسانوی زبان سے مراد ایسی زبان ہے جو نہ فلسفیانہ ہو اور نہ علمی۔ بلکہ واقعے اور صورت حال کو مؤثر طریقے سے بیان کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ افسانے کی زبان میں سادگی ، روانی اور حقیقت پسندی کا عنصر ضروری ہے۔ یہی خوبیاں کسی افسانے کو دلچسپ بناتی ہیں۔ ہر افسانہ نگار کا اپنا ایک اسلوب ہوتا ہے۔ اس نکتے کو سمجھنے کے لیے پریم چند اور منٹو، عصمت چغتائی اور قرۃ العین حیدر، راجندر سنگھ بیدی اور انتظار حسین کے افسانوی اسالیب کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

اردو افسانے کی روایت:

اردو میں افسانہ بیسویں صدی کی دین ہے۔ اردو افسانے کی روایت کا باقاعدہ آغاز پریم چند سے ہوا۔ اردو افسانے کے ابتدائی دور میں دوقسم کے رجحانات سامنے آئے۔ پہلا رجحان حقیقت پسندی کا تھا جس کے روح رواں پریم چند تھے۔ انھوں نے افسانوی ادب کا رخ تبدیل کر دیا اور پسماندہ طبقات کی زندگی کے مسائل کو موضوع بنایا۔ پریم چند کے افسانے ‘دنیا کا سب سے انمول رتن ان کا پہلا افسانہ اور سوز وطن ( 1907) افسانوں کا پہلا مجموعہ مانا جاتا ہے۔ پریم چند کی روایت کو آگے بڑھانے والے افسانہ نگاروں میں پنڈت سدرشن، اعظم کر یوی، علی عباس حسینی ، حیات اللہ انصاری، سہیل عظیم آبادی اور اپندر ناتھ اشک کے نام قابل ذکر ہیں۔

حقیقت پسند رجحان کے ساتھ ساتھ اردو میں رومانی افسانے کی روایت بھی قائم ہوئی۔ اس روایت کی ترقی دینے والوں میں سجاد حیدر یلدرم، احمد اکبرآبادی ، سلطان حیدر جوش ، مجنوں گورکھپوری اور بیگم حجاب امتیاز علی کے نام اہم ہیں۔

بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں باغیانہ تیور رکھنے والے افسانہ نگاروں کی ایک نئی نسل سامنے آئی۔ یہ لوگ پرانے رواجوں، معاشرے پر مذہب کی گرفت اور ہر طرح کی توہم پرستی کے مخالف تھے۔ 1932 میں انھوں نے انگارے کے نام سے ایک مجموعہ شائع کیا جس میں سجاد ظہیر محمود الظفر ، رشید جہاں اور احمد علی کی کہانیاں شامل ہیں۔ پریم چند کے ساتھ ساتھ انگارے کی اشاعت کو بھی ترقی پسند تحریک کا پیش خیمہ کہا جا سکتا ہے۔

ترقی پسند تحریک کا آغاز 1936 میں ہوا۔ کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، احمد ندیم قاسمی ، خواجہ احمد عباس، بلونت سنگھ، قاضی عبدالستار اور رتن سنگھ وغیر ہ نمائندہ ترقی پسند افسانہ نگار ہیں۔ اسی عہد میں حسن عسکری ممتاز شیریں، انتظار حسین اور قرۃ العین حیدر نے نئے افسانے کی بنیاد رکھی۔

ان کے علاوہ سعادت حسن منٹو کا شمار بھی اسی عہد کے اہم افسانہ نگاروں میں کیا جاتا ہے جو اپنے افسانوں کے موضوع اور تکنیک میں دیگر افسانہ نگاروں سے ایک مختلف اسلوب کے حامل ہیں۔1960 کے بعد اردو میں علامتی اور تجریدی افسانے بھی لکھے جانے لگے۔ ان افسانوں میں فرد کی تنہائی، معاشرے کے زوال، سماجی زندگی کے انتشار جیسے موضوعات پر زور دیا گیا۔

بلراج مین را، خالدہ حسین ، غیاث احمد گدی، جوگندر پال ، اقبال متین ، اقبال مجید اور انور سجاد کے افسانوں میں علامت کا رنگ گہرا ہے۔ ان کی تکنیکوں میں ممنوع ہے۔ اس نسل نے حقیقت کو موضوع بنانے کے بجائے حقیقت کے تاثر پر اپنے افسانے کی بنیاد رکھی۔ ان افسانہ نگاروں نے ہی پہلی مرتبہ پلاٹ سے عاری افسانے لکھے۔

اس روایت کو بعد کے جن افسانہ نگاروں نے فروغ دیا ان میں شفق ، شمول احمد ، عبدالصمد اور شوکت حیات کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان کے برعکس سلام بن رزاق ، انور علی امام نقوی، انور قمر، سید محمد اشرف نے نئی حقیقت کو بنیاد بنا کر افسانے کے فن میں توازن قائم کرنے کی کوشش کی۔

افسانچہ کی تعریف اور روایت

افسانچہ کہانی کی مختصر ترین اور جدید ترین صورت ہے۔ اسے منی افسانہ یا منی کہانی بھی کہتے ہیں۔ اس میں ماجراءکردار، واقعہ، ماحول اور تاثر وغیرہ کو مختصر طور پر پیش کیا جا تا ہے۔ اردو میں افسانچے کا آغاز منٹو کے سیاہ حاشیے سے ہوتا ہے جس میں منٹو نے آزادی کے بعد پھوٹنے والے فرقہ وارانہ فسادات کو پس منظر بنا کر چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھی ہیں۔ افسانچہ زیادہ سے زیادہ ایک ڈیڑھ صفحے اور کم سے کم چند سطروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ آج کل یک سطری کہانی لکھنے کا بھی تجر بہ کیا جا رہا ہے۔ منٹو کے بعد جن اہم کہانی کاروں نے افسانچہ لکھ کر اپنی شناخت بنائی ہے ان میں جوگندر پال، ہر چرن چاؤلہ، رتن سنگھ، خالد سہیل عظیم راہی اور عارف خورشید وغیرہ کے نام شامل ہیں۔