گاؤں کی زندگی پر مضمون | Essay On Village Life In Urdu

0

شہری زندگی کی بھیڑ بھاڑ سے دور، سیاست کی دانتا کلکل سے الگ تھلگ، فیشن کی ضلالت سے بے خبر، تکلف اور آرائش کی بک بک سے آزاد فضا میں پھوس پرال یا گارے مٹی کے گھروں نے زمین پر ایک خاص رنگ پایا ہے۔سارے جہان کا ان داتا انہیں گھروں میں رہتا ہے۔ لہلہاتے ہوئے درختوں کی سائیں سائیں اور رہٹ کی روں روں دیہاتی کے لیے نغموں سے کم نہیں۔دیہات کی ٹھنڈی اور پاک ہوائیں نہ صرف صحت افزا ہیں بلکہ روح کو سرور اور دل کو سکون بخشتی ہیں۔ فطرت کے حسین نظارے پردہ سمین کی تصاویر سے کہیں زیادہ دلکش اور مسرت انگیز ہیں۔نرمل پانی گاؤں والوں کے لئے امرت ہے۔ سادگی ان کا زیور ہے۔ ان کے سڈول جسم کو نہ طاعون نے چتھاڑا ہے نہ چیچک نے بگاڑا ہے۔فریب نے اس کے منہ تک کو نہیں دیکھا۔ ہمدردی اس کی باندی ہے۔ مروت اس کی رگ رگ میں سمائی ہوئی ہے۔ ہوا کی لوریاں اسے میٹھی نیند سلاتی ہیں۔

اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ دیہات والوں کی زندگی سر سے پاؤں تک سادگی اور اخلاص کا نمونہ ہے۔ پوشاکیں کا یہ حال ہوتا ہے کہ مہاتما گاندھی کے اصولوں کا قائل ہے۔چار انگل کی لنگوٹی اگر کافی نہیں تو موٹے کپڑے کا تہبند اوڑھ لیا۔ گرمیاں سردیاں ایک ہی کرتے یا فتوحی میں گزر جاتی ہیں۔ جیب نے اجازت دی تو سر پر پگڑ جمالیا۔ حیاوشرم دیہاتوں کا خاص وصف ہوتا ہے۔سادگی میں عورتیں بھی کم نہیں۔ چھینٹ کا کرتا ہی بہت ہے۔ کھردرے لہنگے میں خوش ہیں۔ چادر کو سر سے پھسلنے نہیں دیتیں۔ آنکھوں میں شرم ہے اور عصمت کا نور بھی۔ کہاں وہ شہر کی کنواری لڑکیاں جن میں تمیز ہی نہیں ہوتی اور کہاں یہ آبادیاں کہ شادی بیاہ رچ چکنے پر بھی اطوار میں فرق نہیں آتا۔آرائش کا خیال آیا تو مہندی لگا لی یا منہ کو بیسن ملی۔خوراک سادہ مگر قوت بخش ہے۔ سب کا من بھاتا کھاجا۔ دودھ، دہی، لسی، سبزی، دال اور اناج۔ اگر مسکین ہیں تو روکھی سوکھی روٹی پر قناعت کیے جا رہے ہیں جو کچھ ملا پانی پی کر ڈکار لیا اور خدا کا شکر بجا لائے۔ روٹی باسی ہو کہ موٹی غنیمت ہے۔ سالن مل گیا تو کہنے ہی کیا ورنہ آم کے اچار اور پیاز کے ساتھ چٹخارے لے لے کر کھا لی۔الغرض دیہات کی زندگی بہت ہی سادہ اور مزے والی ہوتی ہے۔

دیہاتیوں کی محنت مشقت کی زندگی بھی قابل داد ہے۔نور کے تڑکے نیند کو آنکھوں میں سے دھو ڈالتے ہیں۔ گائے بھینس کے آگے نہاری چارہ پھینکا۔ بیلوں کی گردن میں جواء ڈالا اور ہل تھامے کھیت کو چل دیے۔ کوئی کیارے درست کر رہا ہے، کوئی ڈول بندیوں میں مصروف ہے، کوئی نالائی میں لگا ہے تو کوئی آبیاری میں۔ کوئی گھاس کاٹ رہا ہے کوئی ایندھن کے لئے درخت کاٹ رہا ہے کوئی رستہ بنانے میں مشغول ہے، کوئی باڑ لگانے میں۔

دیہاتیوں کی صحت بھی قابل رشک ہے۔ کام کی کثرت، زندگی کے سادگی اور آب وہوا کی پاکیزگی نے ان کے جسم لوہے کی لٹھ بنا دیے ہیں۔ ان کی رگوں میں خالص سرخ خون دوڑتا ہے۔ گالوں میں لالی بھڑکتی ہے بڑے ہشاش بشاش۔ جب دیکھو چاک چوبند نظر آتے ہیں۔ نہ حکیم کا احسان نہ ڈاکٹر کی خوشامد۔ میدے میں وہ کس بل ہے کہ پتھر بھی چپا لیں تو ہضم ہوجائے۔ مٹی بھی پھانک لیں تو سونا بن کر انگ لگے۔بینائی اپنی اچھی کے مرتے دم تک ان کی حاجت نہیں پڑتی۔

گاؤں کے رہنے والے ہمدردی کے پتلے ہیں۔ غریب مسکین ان کے دروازے سے خالی نہیں جاتا۔ مہمان آ جائے تو خدا کی برکت خیال کرتے ہیں اور اس کی تواضع میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ ایک گھر کا مہمان گاؤں بھر کا مہمان ہے۔ ایک کی بیٹی گاؤں بھر کی بیٹی ہے۔ شادی آئی تو نیوتہ دینے والوں نے روپیوں کی جھڑی لگا دی۔ سب گلیوں سے دودھ پہنچ گیا۔ چارپائیاں آگئیں۔ بستروں کے ڈھیر لگ گئے۔ ایندھن کے انبار چڑھ گئے۔ دیہات میں تفریح کے سامان بھی سادہ ہوتے ہیں۔

اب جدید دور کی ہوا دیہات میں بھی پہنچ رہی ہے۔ شہروں کے فیشن اور تکلفات وہاں بھی دخل پا رہے ہیں۔ ریڈیو اور ٹرانسسٹر گاؤں گاؤں میں سنے جا رہے ہیں۔ اب کھیتی باڑی میں ہل کی جگہ ٹریکٹر کا استعمال ہوتا ہے۔ ٹیوب ویل بھی لگ رہے ہیں۔ ایک گاؤں کو دوسرے کے ساتھ پختہ سڑکوں سے ملایا جا رہا ہے۔ اب شہروں سے دیہات میں بسوں اور لاریوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ اس سے دیہات میں شہری تمدن پھیل رہا ہے اور وہ دن دور نہیں جب گاؤں کی سادگی اور پاکیزگی ماضی کی داستان بن کے رہ جائے گی۔