Advertisement
Advertisement

کتاب”گلزارِ اردو” برائے نویں جماعت۔

Advertisement

تعارف مصنف:

آپ کا اصل نام سید اکبر حسین رضوی تھا جبکہ آپ اکبر تخلص کرتے تھے۔آپ 1846ء میں ضلع الہ آباد میں پیدا ہوئے جبکہ 1921ء میں وفات پائی۔ابتدائی تعلیم گھر میں والد سے حاصل کی پھر مکتب اور جمنا مشن سکو ل میں داخل ہوئے۔ملازمت کی ابتدا عرضی نویسی سے کی جبکہ 1873ء میں وکالت کا امتحان پاس کرنے کے بعد وکالت کا پیشہ اختیار کر لیا۔

اکبر الہ آبادی کو بچپن سے شاعری کا شوق تھا۔شاعری کی ابتداء غزل گوئی سے کی مگر ان کی انفرادیت طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں نظر آئی اور یہی ان کی شہرت کا سبب بھی بنی۔انھوں نے شاعری کو اصلاح قوم کے کیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے انگریزی تعلیم کے منفی اثرات اور انگریزی تہذیب کی اندھا دھند تقلید پر آواز اٹھائی۔مذہبی اور تہذیبی روایات سے نئی نسل کی بیگانگی،نوجوانوں کی بے راہروی اور عورت کی بے جا آزادی خاص طور سے ان کے طنز کا نشانہ بنیں۔

Advertisement

انھوں نے عام بول چال کے الفاظ کو نہایت فنکارانہ اور دل آویز انداز سے استعمال کیا۔ انگریزی الفاظ سے بھی خاطر خواہ فائدہ اٹھایا۔ آپ کا کلام “کلیاتِ اکبر” کے نام سے چار حصوں میں شائع ہوچکا ہے۔

Advertisement

نظم فرضی لطیفہ کی تشریح:

خدا حافظ مسلمانوں کا اکبرؔ
مجھے تو ان کی خوشحالی سے ہے یاس

یہ شعر اکبر الہ آبادی کی نظم سے لیا گیا ہے جس میں شاعر لیلی و مجنوں کی ایک دلچسپ کہانی کو لطیفہ کی صورت میں بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اکبر مسلمانوں کا خدا حافظ ہے کہ میں تو ان کی خوشحالی اور ترقی کی امید باندھی ہے۔

یہ عاشق شاہد مقصود کے ہیں
نہ جائیں گے ولیکن سعی کے پاس

شاعر کہتا ہے کہ یہ مسلمان ایک واحد ذات اور حق کے عاشق ہیں اور مجھے امید ہے کہ یہ کبھی اپنی راہ سے نہ بھٹکیں گے اور نہ کبھی کسی اور کے عشق میں گرفتار ہوں گے۔

Advertisement
سناؤں تم کو اک فرضی لطیفہ
کیا ہے جس کو میں نے زیب قرطاس

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ مگر آج یہاں میں تمھیں ایک مت گھڑت اور فرضی لطیفہ سناتا ہوں کہ جسے میں نے خود لکھا ہے۔

کہا مجنوں سے یہ لیلیٰ کی ماں نے
کہ بیٹا تو اگر کر لے بی اے پاس

شاعر اس شعر میں تاریخی کرداروں لیلی و مجنوں کی داستان محبت کو لطیفہ کی صورت میں پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ایک روز مجنوں سے لیلی کی ماں نے یہ کہا کہ اگر وہ بی اے یعنی چودہ جاعتیں پاس کر کے تو وہ اس کی اپنی بیٹی سے شادی کروا دے گی۔

تو فوراً بیاہ دوں لیلیٰ کو تجھ سے
بلا دقت میں بن جاؤں تری ساس

شاعر کہتا ہے کہ اگر مجنوں اس کی بی اے پاس کرنے کی شرط کو مان لیتا ہے تو لیلی کی ماں اپنی بیٹی لیلی کو مجنوں سے فوراً بیاہ دے گی اور یہی نہیں وہ بھی بغیر کسی کوشش کے اس کی ساس کے رتبے پر فائز ہو جائے گی۔

کہا مجنوں نے یہ اچھی سنائی
کجا عاشق کجا کالج کی بکواس

شاعر کہتا ہے کہ لیلی کی ماں کی یہ انوکھی شرط سن کر مجنوں نے کہا کہ کہاں عشق اور کہاں یہ کالج اور پڑھائی کی بکواس۔یعنی مجنوں کو لیلی کی ماں کی یہ بات ہر گز پسند نہ آئی۔

Advertisement
کجا یہ فطرتی جوش طبیعت
کجا ٹھونسی ہوئی چیزوں کا احساس

اس شعر میں شاعر کہتا ہے مجنوں نے لیلی کی ماں کو کہا کہ عشق ایک فطری جوش ہوتا ہے جو اپنے چاہنے والے کو دیکھ کر آپ کی طبیعت میں اتر آتا ہے جبکہ دوسری جانب کالج کی پڑھائی ایسی ہی ہے کہ جیسے کوئی چیز آپ کے دل و دماغ میں زبردستی ٹھونسی جارہی ہو۔

بڑی بی آپ کو کیا ہو گیا ہے
ہرن پہ لادی جاتی ہے کہیں گھاس

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ مجنوں نے لیلی کی ماں کو کہا کہ بڑی بی کیا کبھی تم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ کسی ہرن پر زبردستی کی گھانس لادی گئی ہو جیسے ہرن گھاس لادنے کے لیے نہیں بنا ویسے ہی میں بھی تعلیم کے لیے نہیں بنا ہوں۔

یہ اچھی قدر دانی آپ نے کی
مجھے سمجھا ہے کوئی ہرچرن داس

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ مجنوں نے لیلی کی ماں کے اس مطالبے پر شکوہ کناں ہوتے ہوئے کہا کہ یہ میری اچھی قدر دانی ہے کہ آپ نے مجھے چرن داس ہی سمجھ لیا۔

Advertisement
دل اپنا خون کرنے کو ہوں موجود
نہیں منظور مغز سر کا آماس

شاعر مجنوں کی زبان میں اس شعر میں کہتا ہے کہ میں اپنے دل کا تو خون کرنے کو بھی تیار ہوں مگر پڑھائی کی صورت میں مجھے اپنی مغز ماری ہر گز منظور نہیں ہے۔

یہی ٹھہری جو شرط وصل لیلیٰ
تو استعفیٰ مرا با حسرت و یاس

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اگر لیلی سے ملاپ اور اس کو پانے کی شرط یہی ہے کہ میرا بی اے پاس ہونا ضروری ہے تو میں اپنے دل کی اس خوشی اور امید سے بھی پیچھے ہٹنے کو تیار ہوں میں لیلی سے دست بردار ہوتا ہوں۔

سوالوں کے جواب لکھیے:

سوال نمبر01:’خدا حافظ مسلمانوں کا’ سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

‘خدا حافظ مسلمانوں کا’ سے شاعر کی مراد ہے کہ مسلمانوں کے ہر معاملے کو اللہ ہی بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے۔

Advertisement

سوال نمبر02:مجنوں کو لیلی کی ماں نے کیا مشورہ دیا؟

مجنوں کی لیلی کی ماں نے مشورہ دیا کہ وہ بی اے پاس کر لے تو اس صورت میں وہ با آسانی لیلی کو پا سکتا ہے۔

Advertisement

سوال نمبر03:مجنوں نے لیلی کی ماں کو کیا جواب دیا؟

مجنوں نے لیلی کی ماں کو جواب دیا کہ اسے اپنے دل کا خون منظور ہے لیکن دماغ کی مغز ماری ہر گز نہیں کہ کہاں عشق اور کہاں یہ کالج اور پڑھائی کی بکواس اور کیا کبھی اس نے ہرن پر گھاس لدی دیکھی ہے۔ یعنی وہ ہر گز پڑھائی نہیں کرے گا چاہے اس کے لیے اسے اپنے دل کا خون کیوں نہ کرنا پڑے۔

سوال نمبر04:اس نظم (فرضی لطیفہ) کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے۔

اس نظم میں ‘اکبر الہ آبادی‘ نے خوبصورت انداز میں لیلی مجنوں کے پیرائے میں دور حاضر کے نوجوان ناکام عاشقوں کی داستان بیان کی اور کہتے ہیں کہ اکبر مسلمانوں کا خدا حافظ ہے کہ میں تو ان کی خوشحالی اور ترقی کی امید باندھی ہے۔ یہ مسلمان ایک واحد ذات اور حق کہ عاشق ہیں اور مجھے امید ہے کہ یہ کبھی اپنی راہ سے نہ بھٹکیں گے اور نہ کبھی کسی اور کے عشق میں گرفتار ہوں گے۔ مگر آج یہاں میں تمھیں ایک مت گھڑت اور فرضی لطیفہ سناتا ہوں کہ جسے میں نے خود لکھا ہے۔

ایک روز مجنوں سے لیلی کی ماں نے یہ کہا کہ اگر وہ بی اے یعنی چودہ جاعتیں پاس کر کے تو وہ اس کی اپنی بیٹی سے شادی کروا دے گی۔لیلی کی ماں کی یہ انوکھی شرط سن کر مجنوں نے کہا کہ کہاں عشق اور کہاں یہ کالج اور پڑھائی کی بکواس۔یعنی مجنوں کو لیلی کی ماں کی یہ بات ہر گز پسندنہ آئی۔ مجنوں نے لیلی کی ماں کو جواب دیا کہ اسے اپنے دل کا خون منظور ہے لیکن دماغ کی مغز ماری ہر گز نہیں اور کیا کبھی اس نے ہرن پر گھاس لدی دیکھی ہے۔

یعنی وہ ہر گز پڑھائی نہیں کرے گا چاہے اس کے لیے اسے اپنے دل کا خون کیوں نہ کرنا پڑے۔اخر مجنوں نے فیصلہ سنایا کہ اگر لیلی سے ملاپ اور اس کو پانے کی شرط یہی ہے کہ میرا بی اے پاس ہونا ضروری ہے تو میں اپنے دل کی اس خوشی اور امید سے بھی پیچھے ہٹنے کو تیار ہوں میں لیلی سے دست بردار ہوتا ہوں۔

Advertisement

Advertisement