Advertisement
Advertisement

نظم “لینن خدا کے حضور میں” علامہ اقبال کے شعری مجموعے “بال جبرئیل” میں شامل ہے۔ اس نظم کے کل 22 اشعار ہیں۔ اس نظم میں اقبال نے روس کے عظیم انقلابی لینن کے اشتراکی فکر و فلسفہ کو بیان کیا ہے۔

Advertisement
اے انفس و آفاق میں پیدا تری آیات
حق یہ ہے کہ ہے زندہ و پایندہ تری ذات

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اے رب کریم تیری ذات کی جھلک اس دنیا کی ہر ایک شے میں پائی جاتی ہے اور ہر ایک شے میں تیری خدائی کا رنگ دکھائی دیتا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ تیری ذات پائندہ ہے۔ کیونکہ تیری ذات حیی و قیوم (ہمیشگی) کی صفات سے مزین ہے۔

میں کیسے سمجھتا کہ تو ہے یا کہ نہیں ہے
ہر دم متغیر تھے خرد کے نظریات

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ لینن اللہ کی ذات کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میری عقل اور سوچ سمجھ کے نظریات ہر لمحہ ایک تبدیلی سے گزر رہے ہیں اور میں تیری ذات کے وجود کو پہچاننے سے قاصر ہوں کہ تیرا وجود ہے یا نہیں میری عقل اس بات پہ الجھن کا شکار ہے۔

Advertisement
محرم نہیں فطرت کے سرود ازلی سے
بینائے کواکب ہو کہ دانائے نباتات

اس شعر میں لینن خدا سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ میں فطرت کے ہمیشہ سے موجود گیت سے ہر گز واقف نہیں ہوں۔ چاہے یہ خوبصورت ستارے ہوں یا ہر طرح کی بے شمار نباتات اور پھر کوئی علم نجوم کا ماہر اور یا نباتات کا لیکن وہ کائنات کے فطری گیت سے ہر گز واقف نہیں ہو سکتا ہے۔

Advertisement
آج آنکھ نے دیکھا تو وہ عالم ہوا ثابت
میں جس کو سمجھتا تھا کلیسا کے خرافات

اس شعر میں شاعر لینن کی زبانی کہتا ہے کہ آج آنکھ جب اس دنیا کی حقیقت سے دوچار ہوئی تو مجھ پہ یہ اصل حقیقت کھلی کہ میں جیسے محض کلیسا(گرجا گھر) کی لا یعنی باتیں یا پادریوں کی بتائی گئی بے معنی باتیں سمجھتا تھا وہ تو ایک حقیقت ہے۔

ہم بند شب و روز میں جکڑے ہوئے بندے
تو خالق اعصار و نگارندۂ آنات

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ہم انسان ایک دن اور رات کی قید میں جکڑے ہوئے ہیں لیکن اللہ کی ذات زمانوں کو تخلیق کرنے والی اس دنیا کو سجانے والی یعنی نقاش ہے۔

Advertisement
اک بات اگر مجھ کو اجازت ہو تو پوچھوں
حل کر نہ سکے جس کو حکیموں کے مقالات

اس شعر میں شاعر لینن کی زبانی اللہ کی ذات کی صفات اور بڑائی بیان کرنے کے بعد کہتا ہے کہ اگر اجازت ہو تو میں ایک ایسی بات پوچھنا چاہوں گا کہ جسے بڑے بڑے حکیموں اور داناؤں کے مسائل بھی حل نہ کر سکے ہیں۔

جب تک میں جیا خیمۂ افلاک کے نیچے
کانٹے کی طرح دل میں کھٹکتی رہی یہ بات

اس شعر میں شاعر لینن کی زبانی کہتا ہے اور اپنی بات کی تمہید میں اضافہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب تک میں اس دنیا کے آسمان تلے زندہ رہا ہوں مجھے یہ بات سمجھ نہ آسکی اور کانٹے کی طرح سے میرے دل میں کھٹکتی رہی ہے۔

گفتار کے اسلوب پہ قابو نہیں رہتا
جب روح کے اندر متلاطم ہوں خیالات

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ لینن اللہ کی ذات سے کہتا ہے کہ جب انسان کے دل و دماغ اور روح میں کئی طرح کے خیالات طوفان برپا کیے ہوئے ہوں تو اس وقت اسے اپنے بولنے یا بات کرنے کے انداز پہ قابو نہیں رہتا ہے ایسی ہی کچھ اس وقت میری حالت بھی ہے۔

وہ کون سا آدم ہے کہ تو جس کا ہے معبود
وہ آدم خاکی کہ جو ہے زیر سماوات

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ لینن اللہ کی ذات سے یہ سوال اٹھاتا ہے کہ وہ کون سے انسان ہیں جس کا معبود یعنی خدا تو ہے وہ آدم خاکی (مٹی سے بنا انسان) جو اس آسمان کے سائے تلے موجود ہے۔

Advertisement
مشرق کے خداوند سفیدان فرنگی
مغرب کے خداوند درخشندہ فلزات

اس شعر میں شاعر زمین پہ موجود انسان کی بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مشرق والوں پہ حکمرانی کرنے والا ان کا خدا تو سفید فرنگی یعنی انگریز بنے ہوئے ہیں جبکہ اگر مغرب والوں کے خدا کی بات کی جائے تو انھوں نے دولت اور چمکتی دھاتوں کو اپنا خدا بنا رکھا ہوا ہے۔

یورپ میں بہت روشنئ علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظلمات

اس شعر میں لینن اللہ سے کہتا ہے کہ یورپ اگرچہ علم و ہنر اور ترقی کی راہ پہ چل رہا ہے مگر اصل حقیقت تو یہ ہے کہ وہ ظلمت کی تاریکیوں میں گھرا ہوا ملک ہے۔ یہاں پہ اس علم و ہنر کی ترقی ہونے کے باوجود ایک نہ ختم ہونے والا اندھیرا ہے۔

رعنائی تعمیر میں رونق میں صفا میں
گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات

اس شعر میں شاعر کہتا ہے اہل یورپ کی طرز تعمیر، وہاں کی رونقوں اور صفائی وغیرہ ہر ایک شے میں ایک دلکشی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ اس ملک میں دولت کی اس قدر پجارت کی جاتی ہے کہ یہاں کے بینکوں کی عمارات یہاں کے گرجوں سے بھی کئی گنا زیادہ خوبصورت ہیں۔

Advertisement
ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ تجارت درحقیقت ایک جوا ہے یہاں پہ لوگ دوسروں کو سود کی مد میں رقم فراہم کرتے اور اسے تجارت کا نام دیتے ہیں یہاں پہ ایک شخص کا لیا ہوا سود باقی افراد کے لیے موت کا باعث بن جاتا ہے۔

یہ علم یہ حکمت یہ تدبر یہ حکومت
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات

اس شعر میں شاعر یورپ کی تعلیمات و روایات پر بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ لوگ علم و حکمت اور دانائی، غورو فکر کرنے کا درس دیتے ہیں۔ ان کی حکومت کی بھی یہی پالیسی ہے لیکن اصل حقیقت اس کے برعکس ہے کہ یہ لوگ عوام کا لہو پی کر انھیں محض برابری کا درس دیتے ہیں۔

بے کاری و عریانی و مے خواری و افلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کی فتوحات

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ یورپ کے معاشرے میں بے کاری ، فحشی ، شراب نوشی اور بھوک و غربت نمایاں طور پہ موجود ہیں۔ لیکن انہی فرنگیوں کی شہری زندگی میں یہ سب فتح کہلاتی ہے۔

Advertisement
وہ قوم کہ فیضان سماوی سے ہو محروم
حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ یورپ وہ قوم ہے کہ جو آسمان سے اتارے گئے فیض سے محروم ہے لیکن اسکے کمالات کی کوئی حد بندی نہیں ہے اور یہ برق اور بخارا تک کے شہروں میں پھیلے ہوئے ہیں۔

Advertisement
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

اس شعر میں شاعر کہتا ہے یورپ کے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ دراصل انسانی دل کے لیے ترقی اور مشینی آلات دراصل زہر قاتل ہیں کہ اس سے ایک طرح سے دل کی موت واقع ہوجاتی ہے کیوں کہ یہ انسان کےاحساس مروت یعنی انسانیت کو ختم کردیتے ہیں۔

آثار تو کچھ کچھ نظر آتے ہیں کہ آخر
تدبیر کو تقدیر کے شاطر نے کیا مات

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ آغاز میں تو کچھ علامات ظاہر ہوتی ہیں مگر آخر کار تدبیر یعنی انسانی سمجھ بوجھ کو اسکی تقدیر یعنی قسمت ہرا دیتی ہے۔

مے خانہ نے کی بنیاد میں آیا ہے تزلزل
بیٹھے ہیں اسی فکر میں پیران خرابات

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ مے خانے ( شراب پینے کی جگہ) کی بنیاد کس اصول پہ رکھی گئی اس میں بھی ایک ہلچل رونما ہوئی اور اب اسی تبدیلی کی فکر میں پیران یورپ یعنی اس خرابی کی وجہ بننے والے لوگ سر جوڑے بیٹھے ہیں۔

چہروں پہ جو سرخی نظر آتی ہے سر شام
یا غازہ ہے یا ساغر و مینا کی کرامات

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اہل یورپ کہ چہروں پہ جو صبح و شام ایک لالی سی دکھائی دیتی ہے اس کی بنیادی وجہ کیا ہے کہ یا تو انھوں نے گال رنگنے والی سرخی لگا رکھی ہے یا پھر یہ شراب پینے اور پلانے والے کی کرامات کا اثر دکھائی دیتا ہے۔

تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ لینن اللہ سے یہ شکایت کرتا ہے کہ بلا شبہ تیری ذات ہر ایک شے پر قدرت رکھنے والی ذات ہے مگر تیری اس کائنات اور خدائی میں ایک مزدور انسان کی زندگی بہت تلخ اور مشکلات سے بھری ہوئی ہے۔ اس دنیا میں اس کا جینا دشوار ہے(یہاں کارل مارکس کے فلسفے کی جھلک ہے)

Advertisement
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تری منتظر روز مکافات

اس شعر میں شاعر کہتا ہے لینن رب سے یہ سوال کرتا دکھائی دیتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کا یہ رواج کب زوال پذیر ہو گا اور کب مزدوروں کو بھی ان کے حقوقِ مے مطابق سہولیات بھری زندگی نصیب ہو گی۔ اے پروردگار یہ دنیا تیرے اس مکافات یعنی بدلے کی منتظر ہے۔

Advertisement