Advertisement
Advertisement

فیض احمد فیض کی نظم “مجھ سے پہلی سی محبت…” ان کی رومان سے حقیقت کی طرف سفر ہے۔جس نے فیضؔ کو ایک انقلابی شاعر بنادیا۔یہ نظم نقشِ فریادی کے دوسرے حصے کی پہلی نظم ہے۔ اس نظم کے خیالات کے مطابق فیض نے اپنی رومانوی دنیا سے حقیقت کی دنیا میں قدم رکھا۔

Advertisement
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غم دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے

اس بند میں شاعر کہتا ہے اے میرے محبوب مجھ سے اب پہلے جیسی محبت کا تقاضا ہر گز مت کرو۔ مجھے یہ محسوس ہوا تھا کہ اگر تم میرے ساتھ ہو یہ زندگی روشن اور خوشیوں بھری ہے (فیض کے پڑوس میں ایک خاتون تھیں جن سے فیض نے عشق کیا لیکن اس خاتون کی شادی کہیں اور ہو گئی کہا جاتا ہے کہ فیض نے اس نظم میں اس محبوبہ کا ذکر کیا ہے) اگر تیری محبت کا غم میرے ساتھ ہے تو اس دنیا کے غموں کا کیا جھگڑا ہو سکتا ہے۔ تیرے وجود اور تیری شکل و خوبصورتی سے اس دنیا کی بہاروں کی رونق اور ان کو ہمیشگی عطا کی گئی ہے۔اے محبوبہ تیری آنکھوں کے حسن کے سوا بھلا اس دنیا میں کیا رکھا ہوا ہے۔

تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخاب میں بنوائے ہوئے
جا بہ جا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اے محبوبہ اگر تم مجھے مل جاؤ تو مجھے یوں محسوس ہو گا کہ جیسے قسمت میرے سامنے جھک گئی ہو۔ میں صرف ایسا چاہتا ہی تھا بلکہ میری خواہش تھی کہ یہ سب ممکن ہو جائے۔ لیکن اے محبوبہ اب مجھے احساس ہوا ہے کہ زمانے میں محبت کے دکھ کے سوا اور بھی کئی ایک دکھ ہیں (یعنی اگر آپ کو محبت نہیں ملی تو یہ دکھ ایک بڑا دکھ ہے لیکن اگر حقیقت کی دنیا سے خود کو روشناس کروایا جائے تو یہ دکھ اس کے سامنے بے معنی حیثیت اختیار کر جائے گا) اس دنیا میں سکون اور خوشیاں اور بھی کئی ایک چیزوں یا باتوں میں تلاش کی جا سکتی ہیں محض محبوب کا وصال ہی اصل راحت یا خوشی نہیں ہے۔ اس دنیا میں صدیوں سے ایک تاریک قسم کے حیوانی مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔یہاں ریشم ،اطلس اور کمخواب جیسے قیمتی قیمتی جسم جا بجا بند گلیوں میں بکتے ہیں۔ یہاں پہ خاک اور خون میں لتھڑے ہوئے جسم ملتے ہیں۔

Advertisement
جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے
پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
اب بھی دل کش ہے ترا حسن مگر کیا کیجے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ یہاں ایسے لوگ اپنی تکلیفوں کے ساتھ موجود ہیں کہ ان کے جسم کئی ایک تکالیف میں جکڑے ہوئے ہیں۔ان پر مظالم کی یہ انتہا ہے کہ ان کے زخم گل سڑ کر ناسور کی شکل اختیار کر چکے ہیں جن سے پیپ بہتی رہتی ہے۔ کیا کریں اب بھی نظر ادھر کو چلی جاتی ہے۔ اے میری محبوبہ بلاشبہ اب بھی تمھارا حسن دلکش ہے مگر کیا کریں کہ ہمارے لیے اب زمانے میں اس محبت کے دکھ سے بھی کئی گنا بڑے دکھ موجود ہیں۔تجھ سے ملاپ کے علاوہ اور بھی کئی طرح کی خوشیاں موجود ہیں اس لیے مجھ سے پہلی سی محبت کا تقاضا ہر گز مت کرو۔

Advertisement

Advertisement

Advertisement