نظم ذوق و شوق کی تشریح

0

نظم “ذوق و شوق” علامہ محمد اقبال کے مجموعہ کلام ” بال جبرئیل” سے لی گئی ہے۔ اس نظم میں کل 5 بند ہیں۔ یہ نظم پابند نظم کی ہیت میں لکھی گئی ہے۔ یہ نظم کل 31 اشعار پر مشتمل ہے۔ یہ نظم 1931ء میں لکھی گئی۔ نظم کے اکثر اشعار فلسطین میں لکھے گئے۔ اس نظم کے اشعار حمدیہ و نعتیہ نوعیت کے ہیں۔

دریغ آمدم زاں ہمہ بوستاں
تہی دست رفتن سوئے دوستاں

یہ شعر فارسی کے شاعر سعدی شیرازی کا ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ افسوس ہے اگر باغوں میں جاتا ہوا دوستوں کے لیے کوئی تحفہ نہ لے جاؤں اور خالی ہاتھ چلا جاؤں۔

قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں
چشمۂ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں!

اس شعر میں شاعر فلسطین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس کے صحرا میں صبح کا ایسا منظر نظر آیا جو قلب و نظر کو منور کر گیا۔ پھر جب آفتاب طلوع ہوا اور اس کی کرنیں فضا میں رقص کرنے لگیں تو یوں محسوس ہوا جیسے نور کی ندیاں رواں ہوں۔

حسن ازل کی ہے نمود چاک ہے پردۂ وجود
دل کے لیے ہزار سود ایک نگاہ کا زیاں!

اس شعر میں شاعر نے جو منظر بیان کیا ہے اس کے مطابق یوں لگتا ہے کہ حسن ازل ایک بار اپنے مستور حصار کو توڑ کر پھر سے بے نقاب ہو گیا ہے۔ گویا وہی منظر سامنے ہے جو تخلیق کائنات کے مرحلے پر دیکھنے میں آیا تھا۔ یہی وہ منظر تھا جو تخلیق آدم کی وجہ بنا۔ ایسا منظر دیکھنے سے انسان کو وہ دولت مل جاتی ہے جو اسے حیات نو سے روشناس کراتی ہے۔

سرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحاب شب!
کوہ اضم کو دے گیا رنگ برنگ طیلساں!

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ فضا میں رات کے وقت جو بادل چھائے ہوئے تھے وہ صبح کے وقت نیلی اور سرخ بدلیاں چھوڑ گئے اور مدینہ منورہ سے شمال کی جانب واقع کوہ اصنم(مدینہ منورہ میں واقع پہاڑ) کو ان بدلیوں کی رنگ برنگی چادر نے ڈھانپ لیا۔

گرد سے پاک ہے ہوا برگ نخیل دھل گئے
ریگ نواح کاظمہ نرم ہے مثل پرنیاں

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ بارش کی آمد نے ہوا کو گرد و غبار سے پاک کر دیا ہے۔ صحرا میں موجود کھجور کے درختوں کی شاخیں پھواروں سے دھل کر اور زیادہ نکھر گئی ہیں۔ اس کے علاوہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس بارش کی وجہ سے مدینہ منورہ کے قرب و جوار میں پھیلی ہوئی ریت ریشم کی مانند نرم ہو گئی ہے۔

آگ بجھی ہوئی ادھر، ٹوٹی ہوئی طناب ادھر
کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اس علاقے کی جنگوں اور معرکہ آرائیوں کے پس منظر نے ان فوجی قافلوں اور عساکر کی نشاندہی کی ہے۔ میدان مبارزت میں جاتے ہوئے جنہوں نے یہاں عارضی طور پر قیام کیا لیکن پھر افراتفری میں اس طرح روانگی اختیار کی کہ چغے لپیٹتے ہوئے ان کی طنابوں کے ٹوٹنے کی پروا بھی نہیں کی۔ گزشتہ ایک صدی کے دوران فلسطین اور اس علاقے کے لوگوں کو جس محا ذ آرائی سے واسطہ رہا وہ تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ اقبال نے اس شعر میں اس جانب اشارہ کیا ہے۔

آئی صدائے جبرئیل تیرا مقام ہے یہی
اہل فراق کے لیے عیش دوام ہے یہی

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ دوران سفر اس مقام پر محض یوں لگا کہ حضرت جبرئیل اس امر سے مجھے مطلع کر رہے ہیں کہ میں اس علاقے کی تاریخ اور حقائق سے آگاہی کا خواں تو یہی وہ مقام ہے جس کے جائزے سے مجھے حقیقت احوال کا پتہ چل سکتا ہے۔

کس سے کہوں کہ زہر ہے میرے لیے مئے حیات
کہنہ ہے بزم کائنات تازہ ہیں میرے واردات!

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ مجھے قدرت نے ایسے دور میں تخلیق کیا ہے کہ وہ انتہائی فرسودہ عقائد کی آماجگاہ ہے اس پر ستم یہ کہ مجھے ایسے فرسودہ معاشرے میں نئے تصورات اور اجتہادی فکر کے ساتھ بھیجا گیا ہے۔ اب اس کا گلہ اور شکایت کس سے کی جائے کہ اس نوع کی تضادات نے میری زندگی میں زہر گھول کر رکھ دیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ عہد حال کے پس منظر میں میری سوچ اور نظر مستقبل تک رسائی حاصل کرنے کی اہل ہے جب کہ میرے گردوپیش فرسودہ اور منتشر نظریات بکھرے نظر آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس عہد میں آج انسان سانس لے رہا ہے وہ بے حد پرانا ہو چکا ہے جو نئے افکار کو برداشت کرنے کا اہل نہیں۔

کیا نہیں اور غزنوی کارگہ حیات میں
بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہل حرم کے سومنات!

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ فقیہان کرام نے حرم اور مساجد کو بھی اسی طرح اندھی تقلید اور پرستش کی جگہ بنا لیا ہے جس طرح سومنات کے مندر میں بتوں کی پرستش کا دور دورہ تھا۔ چنانچہ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نظام کو بدلنے کے لیے محمود غزنوی جیسا کوئی مرد مجاہد اٹھے اور اس صورت حال کو اسی طرح تبدیل کر دے جس طرح اس نے سومنات کے مندر میں بتوں کو پاش پاش کر کے لوگوں میں وحدانیت کا تصور پیدا کیا تھا۔ مراد یہ ہے کہ کائنات میں فکری سطح پر انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے جو مروجہ فرسودہ نظام کو یکسر بدل ڈالے۔

ذکر عرب کے سوز میں، فکر عجم کے ساز میں
نے عربی مشاہدات، نے عجمی تخیلات

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ عرب اور عجم دونوں کا سارا ماحول اور منظر نامہ تبدیل ہو چکا ہے۔ پہلے عربوں کو ایک آزاد اور حقیقت پسند قوم سے تعبیر کیا جاتا تھا لیکن اب ان میں تصور آزادی اور حقیقت پسندی کا فقدان ہے۔ یہی حالت اہل عجم کی ہے جو اپنی بلندی فکر اور اعلیٰ تصورات کے باعث بین الاقوامی سطح پر شہرت رکھتے تھے۔ اب تو عرب بھی اور اہل عجم بھی اپنی تمام تر خصوصیات سے محروم ہو چکے ہیں۔

قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات!

اس شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ ملت اسلامیہ کے لیے اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو گا کہ آج پورے حجازی قافلے میں ایک فرد بھی ایسا نظر نہیں آتا جو نواسہ رسول حضرت امام حسین جیسی سیرت و کردار کا مالک ہو اور ظلم و استبداد کے علاوہ آمریت کے خلاف اعلان جہاد کر سکے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ظلم و استبداد اور آمریت آج بھی اپنے عروج پر ہے لیکن اس کے خلاف جنگ کے لیے ایک بھی حسین جیسا جہاد کرنے والا پوری ملت اسلامیہ میں موجود نہیں۔

عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بتکدۂ تصورات!

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ انسان کے قلب میں عشق حقیقی جو ولولہ پیدا کرتا ہے وہ عشق ہی اب ناپید ہے۔ کربلا میں شہادت کی اساس یہی عشق حقیقی تھا جس کی بدولت حسین علیہ السلام نے نہ صرف یہ کہ اپنی جان ہار دی بلکہ اپنے عزیز و اقارب سمیت بہت سے رفقاء کو میدان کربلا میں قربان کر دیا۔ یہ عشق حقیقی ہی تھا جس کی بدولت نواسہَ رسولﷺ نے انتہائی نامساعد حالات اور بے سروسامانی کے عالم میں ظلم و استبداد کے خلاف جہاد کر کے حیات جاوداں حاصل کی۔ دراصل عشق حقیقی ہی دل و دانش اور نگاہ کی رہنمائی کرتا ہے۔ عشق کے بغیر تو مذہب اور شریعت محض تصوراتی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔

صدق خلیل بھی ہے عشق صبر حسین بھی ہے عشق!
معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق!

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ یہ عشق ہی تھا جس کی بدولت حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے سچائی اور راست بازی کا رتبہ بلند حاصل کیا۔حضرت امام حسین نے کربلا کے میدان میں جو قربانیاں دیں اور تین روز کی بھوک اور پیاس کے باوجود لشکر یزید کے خلاف علم جہاد بلند کر کے سر کٹوایا اور زندگی کے آخری مرحلے تک صبر و شکر کا مظاہرہ کیا تو یہ سارا عمل عشق حقیقی کی بدولت تھا۔ اس کے علاوہ پیغمبر اسلام حضور سرور کائنات ﷺ نے بدر و حنین کے معرکوں میں کفار کو زیر کر کے جو کامیابیاں حاصل کیں وہ بھی عشق حقیقی کے سبب کیں۔

آیۂ کائنات کا معنئ دیر یاب تو!
نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بو!

اس شعر میں علامہ محمد اقبال فرماتے ہیں کہ خدا نے جس طرح آیات نازل کی ہیں اس طرح کائنات کو بھی تخلیق کیا ہے اور اگر کائنات کو بھی ایک آیت سے تشبیہ دے لی جائے تو یہ ایک ایسی آیت ہو گی جس کا مفہوم اے عشق حقیقی تو ہے کہ آسانی سے جس کی تفہیم نہیں ہو سکتی۔ ارباب ظاہر و باطن تیری جستجو میں ہیں کہ تیرے بغیر وہ اپنے مقصد میں کامیاب و کامران نہیں ہو سکتے۔

جلوتیان مدرسہ کور نگاہ و مردہ ذوق
جلوتیان میکدہ کم طلب و تہی کدو!

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ صورت حال یہ ہے کہ جو لوگ بظاہر تحصیل علم میں مصروف ہیں وہ بے بصیرت اور حقیقت سے ناشناس ہیں۔ ان کے دلوں میں عملاً طلب علم کا ذوق مردہ ہو چکا ہے اور جو لوگ میکدے میں براجمان ہیں وہ صرف کم ظرف ہی نہیں بلکہ خالی پیمانے پر ہی اکتفا کئے ہوئے ہیں۔ مراد یہ زندگی کے لیے عملی جدوجہد سے عاری اور تہی دست ہیں۔

میں کہ مری غزل میں ہے آتش رفتہ کا سراغ
میری تمام سرگزشت کھوئے ہوؤں کی جستجو!

اس شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ جہاں تک میری تخلیقی کاوشوں کا سوال ہے تو بس اسی قدر کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اشعار میں اس آتش رفتہ کا سراغ لگانے اوراس میں از سر نو حرارت پیدا کرنے کی سعی کی ہے جو عرصے سے اپنی فطری صلاحیت سے محروم ہو چکی ہے یہی نہیں بلکہ میں تو اپنے سوئے ہوئے ماضی کی جستجو میں مصروف ہوں۔ وہ ماضی جو درخشندہ اور تابناک تھا۔

باد صبا کی موج سے نشو و نمائے خار و خس!
میرے نفس کی موج سے نشو و نمائے آرزو!

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ جس طرح باد صبا کی حیات بخش لہریں گھاس پھوس کو تازگی سے ہم کنار کر کے اس کی نشوونما کا سبب بنتی ہیں اسی طرح میرا آدرش اور پیغام لوگوں کے دلوں میں عملی جدوجہد اور کچھ کرنےکی لگن پیدا کرتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ میرے اشعار پڑھنے والوں میں یقین اور اعتماد کو جنم دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ عشق الہٰی سے روشناس کرا کے روح کو تازگی بخشتے ہیں۔

خون دل و جگر سے ہے میری نوا کی پرورش
ہے رگ ساز میں رواں صاحب ساز کا لہو!

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میں جو اشعار تخلیق کرتا ہوں ان میں میرے قلب و جگر کا لہو شامل ہوتا ہے۔

فرصت کشمکش میں ایں دل بے قرار را
یک دو شکن زیادہ کن گیسوئے تابدار را

اس شعر میں عشق حبیب سے خطاب کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں کہ تو نے میرے قلب و روح کو جس ولولے اور تڑپ سے روشناس کیا ہے اس میں مزید اضافہ درکار ہے۔ یہ اضطراب جس قدر زیادہ ہو قلب و روح کو تڑپانے کے ساتھ جلا بھی بخشتا ہے۔ ولولے اور تڑپ میں اضافہ اوراس کی تشکیل بالکل اسی طرح ہے جس طرح سے محبوب کی تابدار زلفوں کی شکنوں میں اضافے کا مطالبہ کہ ان میں دل الجھ کر رہ جائے۔

لوح بھی تو، قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب!
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب!

نظم کے یہ اشعار بیک وقت عشق حقیقی اور عشق رسول کے غماز ہیں۔ اقبال اس شعر میں اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ تو ہی لوح و قلم کا مالک ہے اور تیرے وجود کا مظہر قرآن ہے۔ یہاں لوح و قلم کی تراکیب کے حوالے سے رب ذوالجلال کو انسانی تقدیر کا خالق قرار دیا گیا ہے اورا س کے ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ باری تعالیٰ یہ جو رنگ برنگا اور شفاف آسمان ہے یہ تو تیرے دائرہ کار میں ایک معمولی بلبلے کی حیثیت رکھتا ہے۔

عالم آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرۂ ریگ کو دیا تو نے طلوع آفتاب!

شاعر اس شعر میں کہتا ہے کہ مولائے کل! ہر چند کہ تو نے اب تک انسانی نظروں سے اپنے وجود کو پوشیدہ رکھا ہے لیکن تیرے جلوے کی علامتیں طلوع آفتاب کی شکل میں سامنے آئیں جس کی تابندگی نے ریت کے معمولی ذروں کو بھی منور کر دیا ہے۔ اسی نوع کی علامتیں پوری کائنات میں روشنی اور ارتقاء کا سبب ہیں۔

شوکت سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود!
فقر جنیدؔ و بایزیدؔ تیرا جمال بے نقاب!

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ باری تعالیٰ سلجوقی خاندان کا جلیل القدر حکمران سنجر اور خاندان عثمانیہ کا مشہور تاجدار سلیم میں جرات ، حوصلے اور پختہ عزم و ارادہ کی جو خصوصیات موجود تھیں ان کو اگر تری شان جلال کا مظہر کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ اسی طرح تیری شان جمال حضرت جنید بغدادی اور بایزید بسطامی جیسے مقبول بارگاہ اولیا میں دیکھی جا سکتی ہے۔

شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب !میرا سجود بھی حجاب!

شاعر کہتا ہے کہ تیرا عشق میرے سجدہ و نماز کا مقصود و مطلوب نہ ہو تو تیرا دوران نماز میرا قیام بھی بے معنی ہو جاتا ہے اور سجدے میں بھی کوئی کیفیت باقی نہیں رہتی۔ مراد یہ کہ عشق حقیقی کے بغیر نماز اور سجدہ محض نمائشی حیثیت کا حامل ہے۔

تیری نگاہ ناز سے دونوں مراد پا گئے
عقل، غیاب و جستجو! عشق، حضور و اضطراب!

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ تیرا کرم ہو تو عقل و دانش اور جذبہ عشق دونوں ہی اپنی مراد پا جاتے۔ دانش و عقل جو تلاش و جستجو میں لگی رہتی ہے اور جذبہ عشق جو حضوری کا خواہشمند رہتا ہے یہی خواہش اسے مضطرب اور بے قرار رکھتی ہے۔ چنانچہ وہ لوگ جن میں عقل و دانش نمایاں تھی اور وہ لوگ بھی جو جذبہ عشق سے سرشار تھے بالاخر دونوں ہی تیری عنایات سے مستفید ہونے میں کامیاب و کامران ہو گئے۔

تیرہ و تار ہے جہاں گردش آفتاب سے!
طبع زمانہ تازہ کر جلوۂ بے حجاب سے!

شاعر ذات باری تعالٰی کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ اب صورت حال یہ ہے کہ سورج کی گردش جاری رہنے کے بعد بھی ساری دنیا تاریکی میں ڈوبی ہوئی ہے لہذا یہ خواہش اب ناگزیر ہو گئی ہے کہ پردے سے باہر آ کر اپنا جلوہ دکھاتا کہ ساری دنیا اس سے منور اور تروتازہ ہو جائے۔ مراد یہ ہے کہ تیری عنایات کے باوجود آج بھی لوگوں کے دل تاریکی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ برائیاں ہر سو فروغ پا رہی ہیں اور نیکی کی طاقتیں کمزور پڑتی جا رہی ہیں ایسے میں ضروری ہے کہ تو اپنا جلوہ دکھا کر انسان کے سینوں کو اس کی روشنی سے منور کر دے۔

تیری نظر میں ہیں تمام میرے گزشتہ روز و شب
مجھ کو خبر نہ تھی کہ ہے علم تخیل بے رطب!

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اے اللہ میں جانتا ہوں کہ میرا ماضی اور عمل تجھ سے پوشیدہ نہیں ہے جہاں تک میرے کردار کا تعلق ہے میں تو اس حقیقت سے بھی بے خبر رہا کہ علم ایک شجر بے ثمر کے مانند ہے اور میں تھا کہ کم و بیش ساری عمر ہی حصول علم میں گزار دی۔ اس طرح ایک ایسے سائے کے عقب میں دوڑتا رہا جس میں جذبہ عشق کا فقدان تھا۔

تازہ مرے ضمیر میں معرکۂ کہن ہوا!
عشق تمام مصطفی! عقل تمام بو لہب!

شاعر اس شعر میں کہتا ہے کہ اب جو اپنے اسلاف کی زندگی بھر کا جائزہ لیا تو مجھ پر یہ حقیقت منکشف ہو گئی کہ عشق حقیقی کی مظہر تو ذات محمد مصطفی ﷺ ہے اور اس کے مقابلے میں جو عقل و دانش ہے وہ کار بولہبی کے سوا اور کچھ نہیں۔ عقل و خرد تو ہوس خام کا دوسرا نام ہے۔ اگر زندگی کا حقیقی مقصود پانا ہے اور کچھ حاصل کرنا ہے تو اس کا منبع ذات محمد مصطفی ﷺ کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔

گاہ بحیلہ می برد، گاہ بزور می کشد
عشق کی ابتدا عجب عشق کی انتہا عجب!

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اے باری تعالیٰ اب مجھ پر یہ راز آشکار ہو سکا ہے کہ عشق کی ابتدا اور اس کی انتہا دونوں عجیب و غریب ہیں۔ کبھی تو یہ ایسی تدبیروں سے کام لیتا ہے جو فرد کو منزل مراد تک پہنچانے میں مدد دیتی ہیں او کبھی بزور قوت اس کی توجہ اپنی جانب منعطف کراتا ہے جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے مجھے موخر الذکر صورت حال سے واسطہ پڑا۔ یوں عشق نے مجھے عقل و دانش کے دام سے چھڑا کر ایک مثبت کیفیت سے آشنا کر دیا ورنہ میرے مشاغل تو قطعی اس کے برعکس تھے۔

عالم سوز و ساز میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق
وصل میں مرگ آرزو! ہجر میں لذت طلب!

شاعر پر عشق حقیقی نے یہ بھید بھی آشکار کر دیا کہ اس عمل میں ہجر اور جدائی کو وصل حبیب پر فوقیت حاصل ہے وصل میں تو انسان اپنی خواہش اور آرزو کی تکمیل سے آسودہ ہو جاتا ہے لیکن ہجر میں محبوب کی طلب اور اس سے پیدا ہونے والی تڑپ برقرار رہتی ہے اور یہی تڑپ عاشق کے لیے زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ بن جاتی ہے۔

عین وصال میں مجھے حوصلۂ نظر نہ تھا
گرچہ بہانہ جو رہی میری نگاہ بے ادب!

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ یہ میری بدبختی ہی تو ہے کہ جب محبوب کے وصل کا مرحلہ آیا تو مجھے اس کی جانب ایک نگاہ ڈالنے کی ہمت نہ ہوئی حالانکہ میری شوخ نگاہیں عرصے سے دیدار محبوب کی متلاشی تھیں یوں وصل کی خواہش اور عمل بھی ادھورا رہا۔

گرمئ آرزو فراق! شورش ہائے و ہو فراق!
موج کی جستجو فراق! قطرہ کی آبرو فراق!

نظم کے آخری شعر میں شاعر کہتا ہے کہ عشق حقیقی میں ہجر و فراق کی کیفیت ہی سب سے اہم شے ہے۔ آرزو اور خواہش اسی کیفیت میں برقرار رہتی ہیں اور تمام نالہ و فریاد بھی اسی کے دم سے زندہ ہیں۔ اس کی مثال سمندر میں موج کی سی ہے جو اس سے علیحدگی کے لیے مضطرب اور بے قرار رہتی ہے اسی کے سبب سمندر میں تلاطم پیدا ہوتا ہے۔ دور کیوں جائیں ایک قطرہ آب کو ہی لیجیے جو پانی میں مل کر اپنی ہستی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اس کی آبرو تو اسی لمحے تک قائم رہتی ہے جب تک وہ سمندر سے علیحدہ رہ کر اپنے وجود کو برقرار رکھتا ہے۔ مراد یہ کہ اپنی انفرادیت برقرار رکھ کر فرد اپنی شناخت کرا سکتا ہے اور یہی انفرادیت اس کو منزل کا پتہ دیتی ہے۔