Letter In Urdu To Friend

0
       نئی دہلی بھارت
       مورخہ 10 اپریل 2018
                                                           محترم محمد رشید
آداب! آپ کا الم نامہ ملا۔ پڑھ کر رنج ضرور ہوا۔مگر رنج سے زیادہ حیرت اور حیرت کے بعد تشویش ہوئی۔ آخر آلام مصائب کس لیے ہیں۔ انسان ان کا مقابلہ نہ کرے گا تو کون کرے گا؟ ہمت کیوں ہارتے ہو؟ مرد ہو عورتوں کی طرح چلانہ نہیں اور چیخنے چلانے اور واویلا کرنے سے فائدہ بھی کیا؟ اس سے تو مصیبت میں اور اضافہ ہوتا ہے اور اپنے دکھ درد کو بیان کرنا بھی تو ایک مصیبت ہے۔ بقول حالی؀
مصیبت کا احوال ہر اک سے کہنا
مصیبت سے ہے یہ مصیبت زیادہ


میں سچ کہتا ہوں اگر انسان ڈٹ جائے تو کوہ آفت کا بن کر اڑ جائے گا اور اگر کوئی دل چھوڑ دے تو رائی کا پہاڑ بن جائے گا۔ گھبراؤ نہیں بلکہ مشکلات کو دعوت دو اور مصائب کو لبیک کہو تاکہ غالب کے شعر ذیل کی حقیقت تم پر آشکار ہو جائے اور اس کا ہمنوا ہو کر کہو؀
رنج کا خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پہ کہ آسان ہو گئیں


ہماری بہت سی مصیبتین خیالی ہوتی ہیں۔ جب آتی ہیں ہوا بن کر ڈراتی ہیں مگر جب چلی جاتی ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کچھ بھی نہ تھا اور واقعی تھا بھی کچھ نہیں۔ یہ وہم تھا محض ہوا جس کا کوئی وجود نہیں۔

بہرحال دوست کی حیثیت سے میں ہر دم حاضر ہوں۔ تن من دھن ہر طرح سے مدد کروں گا۔ آپ ہرگز کسی غم یا فکر کو اپنے دل میں راہ نہ دیں۔

                                                                     آپ کا صادق
                                                                     (محمد اسلم)