مہاتما گاندھی پر ایک مضمون

0

مہاتما گاندھی دنیاکی عظیم اور نامور ہستیوں میں شمار ہوتے ہیں۔آپ کی عظمت کے قائل نہ صرف اہل وطن ہیں بلکہ اہل عالم بھی ہیں۔آپ نے اپنی زندگی میں ہی اس قدر عزت اور شہرت حاصل کرلی کہ آپ کے عقیدت مندوں نے آپ کے بت نصب کر لیے۔بلکہ کئی جگہ مندروں میں آپ کی مورتی کی پوجا ہونے لگی۔سچائی، نیکی،عدم تشدد، قربانی، امن اور محبت کا یہ دیوتا آج ساری دنیا کا رہنما ہے۔بڑے بڑے سیاستدان آپ کے فلسفے کے قائل ہیں آپ کی ایک ایک بات سےالہام کا رنگ ٹپکتا ہے۔آپ کے ایک ایک نقطے پر دانشمند سر دھنتے ہیں۔سارا جہان آپ کا لوہا مانتا ہے۔1969ء میں آپ کی صد سالہ سالگرہ منائی گئی۔ دنیا کے کونے کونے میں آپ کو خراج تحسین ادا کیا گیا۔آپ کی عظمت کے راگ الاپے کیے گئے ہندوستان میں جابجا یہ تقریب دھوم دھام سے انجام دی گئی۔

مہاتما گاندھی کا پورا نام موہن داس کرم چند گاندھی ہے۔02 اکتوبر 1869ء میں گجرات کا کاٹھیاواڑ کے ایک قصبہ پور بندر کو آپ کی ولادت سے شرف حاصل ہوا۔ابتدائی تعلیم حاصل کرکے انگلستان میں بیرسٹری کا ڈپلومہ حاصل کیا۔اپنے بھائی کے چند مہمان دوستوں کے حق میں وکالت کرنے کی طرف سے جنوبی افریقہ تشریف لے گے۔وہاں کے ہندوستانیوں کی حالت سے اس قدر متاثر ہوئے کہ وہاں کی سرکار کے خلاف جہاد کا علم بلند کر دیا اور آخر اپنے ہم وطنوں کے حقوق تسلیم کروا کر دم لیا۔پہلی عالمگیر جنگ کے خاتمے پر ہندوستان میں جب رولٹ ایکٹ نافذ ہوا تو اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گے۔عدم تعاون کی تحریک شروع کی اور لوگوں کو خواب غفلت سے بیدار کیا اور آزادی کی تڑپ پیدا کی۔خلافت ترکی کو از سر نو زندہ کرنے کے لئے بھی تحریک چلائی۔محمد علی اور شوکت علی کی قیادت میں اس تحریک نے ایسا زور پکڑا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے روح پرور اتحاد کے نظاروں سے برطانوی حکومت کا تختہ ڈگمگایا لیکن انگریز حکمران کی شاطرانہ چال سے اس کے قدم پھر جم گے۔

مہاتماگاندھی اصول کے بندے تھے وہ تشدد کے مخالف تھے عدم تعاون کی تحریک کے لیے انھوں نے عدم تشدد کو شرط قرار دیا۔یہی وجہ ہے کہ جب چوراچوری واقعات میں بہار کے کچھ لوگوں نے جوش میں آکر وہاں کے تھانیدار سپاہیوں کو قتل کر دیا تو مہاتما گاندھی نے اصول کی خاطر تحریک عدم تعاون کو بند کرنے کا اعلان کردیا۔1930ء میں مہاتما گاندھی نے قانون نمک کی خلاف ورزی کی۔شراب اور بدیشی کپڑے کی دکانوں پر پکٹنگ کی گئی۔لوگوں کو سرکاری ٹیکس لگان اور آبیانہ وغیرہ نہ ادا کرنے کی تلقین کی گئی۔سکولوں کالجوں اور عدالتوں کے بائیکاٹ کی ترغیب دی گئی۔ستیہ گرہ کر کے ہزاروں کی تعداد میں لوگ قید ہوئے۔عوام کے جذبات اور جوش کا یہ عالم تھا کہ جیلوں میں تل دھرنے کی جگہ بھی نہ رہی۔آخر سر تیج بہادر سپرو اور مسٹر ایم۔آر جیکر کی وساطت سے 1931ء میں گاندھی ارون معاہدہ طے ہوا جس کی زد سے سیاسی کشمکش کے باب میں ہندوستان کے حقوق تسلیم کر لیے گئے۔

گاندھی جی نے 25 مئی 1915ء کو احمد آباد میں ستیہ گرہ آشرم کی بنیاد رکھی۔آپ نے اچھوت ادھار پر خاص زور دیا۔آپ کی تعلیم یہ ہے کہ تمام انسان بلا لحاظ مذہب و ملت، رنگ وذات برابر ہیں۔آپ جو کہتے تھے اس پر خود عمل کرتے۔اچھوت بھائیوں کوگلےلگایا، اپنے آپ کو ہری جن کہلایا اور بھنگیوں کی آبادی میں قیام کیا۔ہریجنوں کی تعلیم اور ترقی کیلئے ایسے قدم اٹھائے جو کسی کے گمان میں بھی نہیں آ سکتے۔حق پسندوں نے آپ کی کوششوں سے متاثر ہوکر ہریجنوں پر مندروں کے دروازے کھول دیے۔گاؤں سے پانی بھرنے کی اجازت دے دی، مدرسوں میں دوسرے ہندو بچوں کے ساتھ ہریجن بچوں کو پڑھنے کی اجازت دی گئی۔ہسپتالوں میں ان کے ساتھ کسی قسم کا امتیاز روا نہیں رکھا گیا۔جب انگریزی حکومت نے کمیونل ایوارڈ کے ذریعے اچھوتوں کو ہندوؤں سے الگ کرکے جداگانہ نیابت کا حق دینے کی تجویز بنائی تو مہاتما گاندھی نے جان کی بازی لگا کر اس فیصلے کو رد کروایا اور اچھوتوں کو ہندوؤں کا ایک انگ قرار دلوایا۔

سودیشی کا پرچار مہاتماگاندھی کی نظر میں بہت اہم تھا۔وہ کھادی کو ہندوستان کی نجات کا ذریعہ اور چرخے کو امن دوستوں کا موثر ہتھیار سمجھتے تھے۔آپ کے نزدیک چرخا ہندوستان کی دیہاتی صنعتوں کا مرکز تھا۔گاندھی جی ایشور کی ذات پر اس قدر وشواس رکھتے تھے کہ رام نام کو سب بیماریوں کا علاج بتاتے تھے۔رام اور رحیم آپ کے لئے ایک ہی ذات پاک کے دو نام ہیں۔صبح وشام عبادت کرنا ہر انسان کے لئے فرض ہے ہندومسلم اتحاد آپکو جان سے زیادہ عزیز تھا۔قدرتی طریق علاج کو پسند کرتے تھے۔آپ ہمیشہ سادہ زندگی بسر کرتے اور ایک لنگوٹی اور چادر اوڑھے رہتے تھے۔تیسرے درجے کے ریلوے ڈبہ میں سفر کرتے تھے۔اس لنگوٹی پہنے والے فقیر کی خدمت میں بڑے بڑے راجوں اور نوابوں کے سر جھک جاتے تھے۔اس بہت بڑے انسان کی موت کا باب نہایت المناک ہے۔ آپ 30 جنوری 1949ء کو ایک کج فہم اور تنگ نظر ہندو نوجوان کے ہاتھوں شہید ہوئے۔