خوش اخلاقی پر ایک مضمون | Essay On Khush Ikhlaqi In Urdu

0

خوش اخلاقی انسان کے لیے ایک ایسا سرمایہ ہے جس سے ہماری دنیا حیثیت کا نمونہ بن سکتی ہے۔اگر آج دنیا سے خوش اخلاقی ختم ہوجائے تو انسانوں اور درندوں میں کوئی فرق نہیں رہے۔ انسان دراصل نام ہے انسانیت کا اور انسانیت خوش اخلاقی کو کہتے ہیں۔

انسانی معاشرت کی بنیادی اسی جذبہ انسانیت پر قائم ہیں۔جس قوم اور سماج میں خوش اخلاقی نہیں اس کی بنیادی گویا کھوکھلی اور ناپائدار ہیں۔مشہور انگریزی ادیب چیٹر فلیڈ کہتا ہے کہ انسان کے نیک اعمال میں انسانیت اور خوش اخلاقی سے تعلق رکھنے والے افعال سب سے زیادہ خوشگوار ہوتے ہیں اور یہ بالکل صحیح ہے کہ تمام انسانی نیکیاں مثلاً عقلمندی، سخاوت، ہمدردی اور شجاعت کے بغیر انسان ایک بے جان جسم کی طرح ہے۔

اب ہمیں یہ جاننا ہے کہ اخلاقی اقدار یا خوش اخلاقی کسے کہتے ہیں؟ خوش اخلاقی خندہ پیشانی اور اچھے برتاؤ کا دوسرا نام ہے۔ خوش اخلاق انسان ہمیشہ دوسروں کے ساتھ محبت اور انسانیت سے پیش آتا ہے اور بداخلاقی، نفرت اور بدتہذیبی سے اس کو انتہائی نفرت ہوتی ہے۔ ہم میں سے ہر شخص اچھے برتاؤ اور نیک سلوک کی توقع رکھتا ہے اور شریف انسان کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کی جائز توقعات کو پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے۔ جس طرح بغیر خوشبو اور رنگینی کے کوئی پھول، پھول کہلانے کا مستحق نہیں ہے اسی طرح بغیر انسانیت اور خوش اخلاقی کے کوئی انسان، انسان کہلانے کا حق نہیں رکھتا۔

خوش اخلاقی انسان کی فطرت میں ایک ایسی شیرنی اور مٹھاس پیدا کر دیتی ہے کہ اس کا ہر قول و عمل خوشگوار معلوم ہوتا ہے۔ اس لئے خوش اخلاق انسان کا وجود انسانی سماج کے لیے اس شہد کی طرح ہوتا ہے جو زندگی کی تلخیوں کو اپنے اثر سے خود شہد بنا دیتا ہے۔ اس کے برعکس بد اخلاق لوگ ان تلخیوں کو اتنا بڑھا چڑھا دیتے ہیں کہ زندگی خود زہر ہلال بن کر رہ جاتی ہے۔

ایک خوش اخلاق انسان میں عاجزی اور انکساری کا مادہ پہلے ہی سے موجود ہوتا ہے اس لئے کہ خوش اخلاقی وہی برت سکتا ہے جس میں غرور اور خود پرستی کا جذبہ نہ ہو۔جو لوگ خواہ مخواہ اپنے آپ کو اونچا اور بڑا آدمی سمجھتے ہیں وہ قدرتی طور پر لوگوں سے انکساری سے نہیں مل سکتے۔ ان میں ایک قسم کا احساس کمتری ہوتا ہے جس سے بار بار ان کے جذبۂ غرور کو ٹھیس لگتی ہے۔ وہ اس سے بچنے کی کافی کوشش کرتے ہیں جو صحیح معنوں میں برتری رکھتا ہوگا وہ کبھی بھی بد اخلاقی کا مرتکب نہ ہوگا اور نہ کبھی بد اخلاقی برتنے کی جرأت کرے گا۔چونکہ اس کو اس بات کا یقین ہو گا کہ اگر وہ واقعی بڑا عزت والا انسان ہے تو لوگوں سے جھک کر ملنے سے اس کی عظمت اور بڑائی میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آ سکتا۔ بلکہ اس کی خوش اخلاقی اس کے برعکس اس کی عظمت اور برتری کو اور بھی چار چاند لگانے کا باعث ہوگی۔

خوش اخلاق بننے کے لئے انسان کو بہت زیادہ محنت یا جدوجہد نہیں کرنا پڑتی۔ وہی مثل ہے کہ ‘مہندی لگے نہ پھٹکری رنگ چوکھا آئے’ انسان اگر دوسروں کے جذبات کا احترام کرے اور اس کے دل میں ذرا سی ہمدردی موجود ہو تو انسان میں ہر بیش قیمت جوہر خود بخود چمک اٹھتا ہے۔ روزانہ زندگی میں سینکڑوں مواقع ایسے آتے ہیں کہ ہم ذرا سی خوش اخلاقی سے پیش آ کر لوگوں کے دل جیت سکتے ہیں اور ان پر حکومت بھی کرسکتے ہیں۔ یہی چھوٹی چھوٹی فتوحات انسان کو ایک دن غیر محسوس طریقے پر ہر دلعزیز بنا دیتی ہیں اور اچانک وہ دیکھتا ہے کہ ہر شخص اس کے معمولی اشارے پر اپنی جانیں قربان کرنے کا کیلئے تیار کھڑا ہے۔اخلاقی اور مذہبی دونوں اعتبار سے خوش اخلاقی کا درجہ بہت بلند ہے۔ دنیا کے ہر انسان پر یہ خوبی بدرجہ اتم موجود تھی۔

پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد ﷺ کی خوش اخلاقی آج دنیا میں زبان زد خاص و عام ہے۔ دوست تو دوست دشمن سے بھی آپ جس خوش اخلاقی اور خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے وہ ہمارے لیے انسانیت کا ایک مکمل نمونہ ہے۔ یہی وجہ تھی کہ دیکھتے دیکھتے دشمنوں نے بھی ہتھیار ڈال دیے اور اسلام قبول کرلیا اور خود بخود اپنی جان کے نذرانے پیش کیے۔ مال و دولت ان کے لئے قربان کر دیں۔ یہ تو خیر انسان کامل کی مثال ہے جو مجسمہ اخلاق بلکہ معلم اخلاق تھے۔ خود دنیا دار لیڈروں اور بڑے بڑے رہنماؤں میں بھی یہ خوبی موجود تھی۔

بغیر خوش اخلاقی کے انسان کی شرافت مکمل اور کامل نہیں ہو سکتی۔ انسان کتنا ہی شریف کیوں نہ ہو اگر وہ خوش اخلاق نہیں ہے تو اس کی شرافت واقعی مشکوک سمجھی جائی گی۔ ایک معمولی حیثیت کا آدمی اگرچہ وہ کسی شریف خاندان سے تعلق نہ رکھتا ہو لیکن اگر اس میں یہ جوہر موجود ہے تو ہر حالت میں اسے پسند کیا جائے گا اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔اس لئے اگر چہ خوش اخلاقی انسان کی شرافت اور عظمت کی دلیل ہے پھر اتنا ضروری کہا جاسکتا ہے کہ عام طور پر جو لوگ خوش اخلاق ہوتے ہیں ان کے کردار کے پیچھے ایک شریف اور عظیم المرتبت روح کارفرما ہوتی ہے۔