برسات کی ایک شام پر مضمون

0

سارا دن گرمی  پڑی، انسان حیوان سبھی ہانپ رہے تھے۔گھر سے باہر نکلنا دشوار تھا۔ شام کو اچانک پروا چلنے لگی۔افق سے کالی پیلی بدلی اٹھی۔تھوڑی ہی دیر میں اودے اودے بادلوں کا دل جھومتا ہوا آپہنچا۔دیکھتے دیکھتے گنگھور گھٹائیں چھا گئیں۔درختوں کی شاخیں لہرانے لگیں۔مور ناچنے لگے۔ مرغابیاں کلول کرنے لگیں۔بطخیں جوہر کی سطح پر تیرنے لگیں۔کوئل کی کو سے جنگل میں منگل ہو گیا۔

لو۔ ننھی ننھی بوندیں برسنے لگیں۔ساون کی پھوار دلوں کو لبھا رہی ہے۔نرم نرم کو نپلیں بھیگ گئیں۔لہلہاتی ہوئی ڈالیوں پر نیا جوبن ظاہر ہوا۔گرجتے ہوئے بادل مچل مچل کر جا رہے ہیں۔بچے، بوڑھے، عورت، مرد سب خوشی سے پھولے نہلے نہیں سماتے۔چھوکروں نے لنگر لنگوٹے کس لیے۔جوانوں نے گراموفون پر ریکارڈ چڑھا دیے۔بوڑھوں نے کپڑے اتار کر حقے تازہ کئے اور گڑ گڑ شروع کردی
‌گھر گھر کڑاہیاں چڑھ گئیں۔پکوان اور مالپوڑے تلے جاتے ہیں۔پکوڑے گلگلے تیار ہو رہےہے ہیں۔روٹی کا بازار گرم ہے کھیر پک رہی ہے خدا نے کڑھی چاول کی بھی سن لی۔کہیں پراٹھے اتر رہے ہیں کہیں آلو کچ کہیں آلو کچالو اور انار جامن پر ہاتھ صاف ہو رہے ہیں۔شوقین مزاجوں نے ٹب بالٹیوں میں قسم قسم کے آام ڈال دیئے۔لنگڑا، بنارسی، مالدہ، سفیدہ، دسہری سہارنپوری اور لڈوا کیا کیا تحفے ہیں۔چھلکے گھٹلیوں کے ڈھیر لگ گئے۔درختوں میں جھولے پڑے چھوٹے بڑے سب باری باری جھولنے لگے۔

‌ سبحان اللہ! گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا گیا۔بجلی کڑکنے لگی، بادل گرجنے لگے، موسلادار بارش ہونے لگی۔پرنالے تڑاتڑ گرنے لگے چھپرٹپکھپرٹپک ٹپک کر رہے ہیں۔ندی نالے بھر گے نالیاں لبریز ہوگئیں طوطے، چڑیاں اور کبوتر آشیانوں میںں دبک گے۔چھم چھم مینہ  برس رہا ہے گلیاں۔ ندیاں اور بازار نالے بن گئے۔بھیسیں جوہڑوں میں غوطے لگا رہی ہیں پانی بانسوں چڑھ گیا۔چھتیں ٹپکنے لگیں۔ شکر گارا ہوگی۔بچے نہاتے ہوئے اچھل رہے ہیں اور ایک دوسرے پر چھینٹے اڑا رہے ہیں۔کوئی کاغذ کی کشتی بھا رہا ہے۔کوئی پانی میں ڈبکی لگا رہا ہے ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں۔

‌ تھوڑی دیر پہلے ٹھٹ کے ٹھٹ آدمیوں کے غل غپاڑے میں لگے تھے۔اب یہ حالت ہے کہ اپنے اپنے کوٹھوں پر سوراخ بند کرنے میں م میں مصروف ہیں۔ برساتیاں اور چھاتے بیکار ہو چکے ہیں۔تیز جھونکے آتے ہیں تو پانی کی چادریں اڑ نکلتی ہیں۔ کمروں میں پڑی چیزوں کو بھگو جاتی ہیں۔ایسا جان پڑتا ہے کہ نوح کا طوفان امڈ آیا یا اندردیوتا بگڑ گئے۔بارش بند کرنے کے لئے دعائیں ہونے لگی طرح طرح کے ٹوٹکےکام میں لائے جا رہے ہیں۔کوئی مسافر بنا کر کھڑا آتا ہے، کوئی پرنالہ لیپتا ہے، کوئی دوپٹے کے سرے پر گرہ ڈالتا ہے۔مولا کا لاکھ لاکھ شکر کہ آخر سنی گئی بادل چھٹنے لگے۔بھرائ ہوئی برکھا بوندا باندی میں بدل رہی ہے۔

‌ تالاب اچھل گے، ایک جوہر کا پانی دوسرے سے جاملا ،ندی کو دیکھو فراٹے مار تی گرداب ڈالتی جا رہی ہے، خدا کی قدرت کے کیا کہنے! غروب ہوتے ہوئے سورج کی سرخ شعاعوں نے مغرب میں آگ لگا دی۔درختوں کی دھلی نکھری چوٹیوں پر روشنی کھیل رہی ہے۔مندر کے کلس اور اونچے اونچے مکانوں کی منڈیروں پر منڈیروں پر نور کے حاشیے چڑھ گئے۔ہرے ہرے بیل بوٹوں کی سج دھج غضب ڈھا رہی ہے۔آم کے پیڑوں پر عجب رونق ہے۔ مشرق کی طرف نگاہ پڑی تو نیا نظارہ دکھائی دیا۔اندر دیوتا نے اپنی کمان کھینچی۔اس  دھنش کے سات رنگ قیامت کی بہار پیدا کر رہے ہیں۔اردو فارسی کے ادیب اسے قوس قزح کہتے ہیں۔اس میں رخ محبوب کی جھلک  دیکھتے ہیں۔ادھر دیکھا تو رنگارنگ کی تیتریاں اڑتی پھرتی سامنے آگئی۔بیر بھٹیاں کھیتوں میں یوں نظر آتی ہیں گویا آگ کی سرخ چنگاریاں ہیں۔

‌ روشنی کافور ہوگیئ، چراغ روشن ہوئے، پروانوں بھنگوں اور ٹڈوں کی فوجیں ٹوٹ رہی ہیں۔کیڑے، مکوڑے، پتنگے، بچھو اور کنکھجورے ہر طرف منڈلا رہے ہر طرف منڈلا رہے ہیں۔جگنو کی جھلک چمک سے عجیب نظارہ پیدا ہو رہا ہے۔گویا فضا میں بجلی کے ذرّے اڑ رہے ہیں۔مینڈک مل مل کر ٹراتے ہیں۔مچھروں کی بھیں بھیں نے تال سے تال ملا دی۔کپڑے بدن سے چمٹے جاتے ہیں۔آہا! چاند نکل آیا۔چاندنی چھٹکنے لگی، دن تمام ہوا۔رات کی عملداری شروع ہوئی۔