کشمیر کے دریاؤں پر ایک مضمون

0

 دریائے سندھ

 یہ دریا جھیل مانسر کے قریب تبت سے نکلتا ہے اور تقریبا 29 سو کلو میٹر لمبا ہے۔جس میں سے تقریبا 966 کلومیٹر ریاست جموں و کشمیر کی حدود میں بہتا ہے۔سب سے پہلے اپنے منبع سے شمال مغرب کو ہو جاتا ہے اور کوہ ہمالیہ کے پہاڑوں سے گزرتا ہوا یہ دریا علاقہ لداخ میں داخل ہوتا ہے۔لداخ کے علاقے میں اس کے اردگرد بڑے بڑے اونچے پہاڑ ہیں جن میں بڑے بڑے گلیشئیر پائے جاتے ہیں جب وہ گرمیوں میں پگھلتے ہیں تو دریائے سندھ میں کافی طغیانی آجاتی ہے۔لیہ کے کچھ نیچے زلنسکار کا نالہ آ ملتا ہے۔اسی طرح یہ گلگت کے علاقہ تک جو اب پاکستان کے ناجائز قبضے میں ہے بڑی آب وتاب سے بہتا ہے۔اسکردو سے نکل کر یہ دریا بہت تیز ہو جاتا ہے۔ گلگت میں یہ دریا بہت سست گرفتار ہے اور اس کے کناروں پر زرخیز مٹی بچھا دیتا ہے۔ لیکن یہ دریا جہاز رانی کے قابل نہیں ہے اور نہ ہی آبپاشی کے۔کیوں کہ تیز رفتار ہونے کے ساتھ ساتھ آبشاریں کافی بناتا ہے۔ گلگت سے 340 کلو میٹر کے فاصلہ پر یہ دریا پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔

 دریائے جہلم

 یہ دریا اننتناگ کے قریب چشمہ ویری ناگ سے نکلتا ہے۔ کشمیری اس کو ویتھ یا وتستا کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔یونانی ہائیڈریٹس کہتے ہیں اس جگہ پر دریا ایک معمولی نالہ کی طرح دکھائی دیتا ہے بعدازاں کھنہ بل جو ویری ناگ چشمہ سے 25.6 کلومیٹر دور ہے اور اس کے آگے اس میں بے شمار پہاڑی نالے آملتے ہیں جو اردگرد کی چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں پر سے آتے ہیں جن کے نام پہورد، مدھومتی، وشو،رومیشو،لدر،دودھ گنگا،لالہ سندھ،اور فیروز پور نالے ہیں۔ویری ناگ سے کھنا بل تک یہ دریا صرف نالے کی شکل میں ہے۔یہ دریا کھنہ بل سے گزر کر سرینگر کے بیچوں بیچ بہ کر جھیل ولر میں داخل ہو جاتا ہے۔کئی دفعہ اس دریا کا پانی جھیل ڈال میں چلا جاتا ہے جس کی روک تھام”لاک سسٹم” کے ذریعے ڈھل گیٹ کے پاس کی گئی ہے۔کھنہ بل سے بارہمولہ تک یہ دریا میدانی علاقوں میں بہتا ہے اس لیے یہ کافی سست رفتار ہے اور کشتی رانی کے قابل ہے۔

جھیل ولر میں سے یہ دریا ایک طرف سے داخل ہوتا ہے اور دوسری طرف سے پھر آگے نکل جاتا ہے ۔اس سے آگے بارہمولہ سے کوہالہ تک یہ دریا اکہری وادی میں داخل ہونے کی وجہ سے بہت تیز رفتار ہے۔دومیل کے قریب دریائے کشن گنگا اس سے آ ملتا ہے اور جنوب میں ریاستی علاقہ کے سرحد بناتا ہوا علاقہ پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ وادی کشمیر میں اس کی کل لمبائ 177 کلومیٹر ہے۔

سرینگر کا شہر اسی دریا کے دونوں طرف آباد ہے۔ شکارے میں بیٹھ کر سرکاری دفاتر، مندر و مساجد اور عالیشان عمارتیں دیکھنے میں آتی ہیں۔دریاۓ جہلم سے آبپاشی، آمدورفت اور بجلی پیداکرنے کا کام لیا جاتا ہے۔جیالوجی کے ماہرین کا خیال ہے کہ اس دریا کے پاس جو کریو پائے جاتے ہیں ان سے پتہ لگتا ہے کہ اس علاقہ میں زمانہ قدیم میں ایک بہت ہی بڑی جھیل تھی۔

 فیروزپور نالہ

 دریائے جہلم کا معاون یہ نالہ بارہمولہ گلمرگ کی مغربی پہاڑیوں میں بہتا ہے۔اس میں کئی چھوٹے چھوٹے نالے چشمے گرتے ہیں اور یہ چھوٹی چھوٹی جھیلوں سے بنا ہے۔

 دودھ گنگا

 یہ ایک اور معاون دریا ہے جو پیرپنجال سے ٹاٹا کٹلی پہاڑ سے نکلتا ہے۔اس میں سنگے سافیڈ اور یاچیرا دو پہاڑی نالے ملتے ہیں۔ یہ دریا سرینگر کے نزدیک بٹمالو میں سے ہو کر گزرتا ہے۔

دریائے چناب

 یہ دریا علاقہ لاہول اور سپتی کے علاقہ کے جنوب میں سے نکلتا ہے۔یہاں پر اس کا نام چندر باگا ہے کیونکہ چند دریا درہ باوالاچا کے جنوب میں مشرق سے بہتا ہوا اور دریائے بھاگا اس کے شمال مغرب کی طرف سے بہتا ہوا ٹنڈی کے مقام پر ملتا ہے یہاں دونوں کے ملنے سے اس کا نام چندر بھاگا بن جاتا ہے۔پھر ریاست چمبہ کے پگی وادی سے بہتاہوا علاقہ باڈر کشتواڑ میں داخل ہوتا ہے۔کشتواڑ کے مقام پر وارڈن دریا اسے آ ملتا ہے جوکہ لداخ کی طرف سے آتا ہے۔ کشتواڑ سے یہ دریا مڑ کر مغرب کی طرف بہتا ہے اور ڈوڈہ رام بن سے ہوتا ہوا اور علاقہ ریاستی میں داخل ہوتا ہے۔نالہ ٹھاٹھری اور بانہال کا نالہ اس میں آ ملتے ہیں۔یہ دریا پہاڑی علاقہ میں بہت تیز بہتا ہے اس کے اردگرد بڑے بڑے پہاڑ ہیں جن پر دیودار کے جنگلات ہیں۔ان جنگلات کو کاٹ کر شاہتیریاں بنا کر دریا میں بہائ جاتی ہیں۔ریاست کے علاقہ سے یہ دریا اکھنور کی تحصیل میں داخل ہوکر ہمیر پور سدھیڑ کے مقام پر علاقہ پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔یہ دریا تیز رفتار ہے اس لیے کشتی رانی و آبپاشی کے قابل ہے۔چیونکہ یہ دریا برفانی پہاڑوں سے آتا ہے اس لیے اس کا پانی نہایت ہی ٹھنڈا ہے۔اس سے اکھنور اور دیوی پورا کے مقامات سے رنبیر اور پرتاب نہریں نکالی گئی ہیں۔جو کہ علاقہ جموں رنبیر سنگھ پورہ اور اکھنور کی تحصیلات کو سیراب کرتی ہیں۔

 دریائے کشن گنگا

 یہ دریا دراس کے پہاڑوں سے نکل کر تلیل اور گریز کی وادی سے گزرتا ہے۔گریز سے آگے یہ کیرن، کرناہ ٹیٹوال گھوڑی سے ہوکر دومیل مظفر آباد میں دریائے جہلم سے جا ملتا ہے۔کیونکہ یہ ایسے پہاڑوں سے نکلتا ہے جو سارا سال برف سے ڈھکے رہتے ہیں اس لیے اس کا پانی بہت ہی ٹھنڈا ہوتا ہے۔یہ دریا تیز رفتار ہے اس لیے کشتی رانی کے قابل نہیں۔دراہ، کرن، شاردا، اور دواریاں کے جنگلات کی لکڑی اسی دریا کے ذریعہ میدانوں میں لے جائ جاتی ہے۔اس وقت یہ دریا تقریبا سارے کا سارا پاکستان کو کشمیر وادی سے الگ کرتا ہے۔

 دریائے توی

 یہ دریا بھدرواہ سے کچھ دور سیوج دھار سے نکلتا ہے اور رام نگر کی پہاڑیوں کی طرف سے بہتا ہوا علاقہ چہننی میں آتا ہے اور پھر ادھمپور سے ہوکر جموں شہر کے ساتھ ساتھ بہتا ہوا علاقہ پاکستان میں دریائے چناب سے جا ملتا ہے۔چونکہ برسات کے دنوں میں اس دریا میں سخت طغیانی آجاتی ہے اس لیے آبپاشی کے لیے مفید نہیں۔البتہ جموں شہر کو دریائے توی کا پانی صاف کر کے پینے کا پانی مہیا کیا جاتا ہے اور اودھم پور کے پاس سے نہر نکال کر ارد گرد کے علاقے کو سیراب کیا جاتا ہے۔اور پن بجلی پیدا کرکے ادھمپور کو روشنی بھی دی گئی ہے۔اب جموں میں قلعہ باہو کے پاس سے بھی دریائے توی سے ایک نہر نکالی گئی ہے جس میں سے پمپوں کے ذریعے پانی نہر میں ڈالا گیا ہے یہ نہر آگے جاکر راوی نہر سے جا ملتی ہے۔

 دریائے اوجھ

 دریائے اوجھ دریائے راوی کی ایک شاخ ہے۔یہ رام کوٹ کے علاقہ سے آتا ہے اور کٹھوا کے علاقہ سے بہتا ہوا شکرگڑھ (پاکستان) کی تحصیل میں داخل ہوتا ہے۔یہ دریا برسات کے موسم کا چھوٹا سا دریا ہے اس میں بھی برسات میں کافی طغیانی آجاتی ہے جس سے اکثر فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں۔اس سے بھی ایک چھوٹی سی نہر نکالی گئی ہے جو آس پاس کے علاقے کی سنچائ کرتی ہے۔