حضرت محمدﷺ پر ایک مضمون

0

اسلام کے ظہور سے پہلے اہل عرب کی حالت بہت خستہ تھی۔لوگ جاھل اور وحشی تھے کہیں آگ کی پوجا ہوتی تھی تو کہیں ستاروں کی۔کسی کو تعویذ گنڈے پر اعتقاد تھا تو کسی کو رمل اور فال پر۔ہر قبیلہ اپنے اپنے بت کو خدا مانتا تھا۔ہر گھرانہ اپنے خدا کو چار دیواری میں قید رکھتا۔کعبہ مکرمہ میں، جو اب بیت اللہ یع‌ی خدا کا گھر ہے، 360 بت تھے۔لوگ درختوں کو سجدے کرتے تھے،قبروں پر ناک رگڑتے تھے،جابجا فتنہ و فساد بپا رہتا۔امن و سکون نام کو بھی نہ تھا ذرا ذرا سی بات پر سالو‌ں لڑائیاں چلتی رہتی تھی،نہ قانون تھا، نہ انصاف لوٹ مار کا بازار گرم رہتا تھا،جوا عام تھا، شراب کو ماں کے دودھ سے زیادہ سمجھا جاتا۔ننھی بچیوں کو زندہ زمین میں دفن کر دیا جاتا۔غرض سرزمین عرب میں چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا ایسے میں خداوند تعالیٰ کی ذات پاک نے اپنی رحمت کے دروازے کھولے۔ایمان کی راہ سے بھٹکے ہوئے لوگوں کی ہدایت کے لیے سرور کائنات حضرت محمدﷺ کو اس دنیا میں بھیجا۔آپ مکہ معظمہ کے نہایت ممتاز خاندان قریش حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب کے گھر 570ء میں پیدا ہوئے۔آپ کی ولادت سے دو ماہ پہلے ہی آپ کے والد کا انتقال ہوچکا تھا۔چھ برس کی عمر میں آپ کی والدہ ماجدہ بی بی آمنہ بھی وفات پا گئیں۔چناچہ آپ کی پرورش آپ کے دادا عبدالمطلب کے ذمہ آئی۔لیکن دو سال بعد دادا کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔اس پر حضورﷺ کے چچا ابوطالب آپ کے سرپرست بنے۔

بچپن کے مصائب آنحضرتﷺ کے حوصلوں کو ڈھا نہ سکے۔دراصل حکم الٰہی نے آپ کی تقدیر میں قوم کی چوپانی لکھ رکھی تھی۔چناچہ بعد میں وہ بنی نوع انسان کے ہادی اعظم بنے۔جوان ہوئے تو آپ نے ایک امیر بیوہ خدیجہ کی ملازمت اختیار کی۔آپ نے اپنے فرائض اس خوس اسلوبی کے ساتھ انجام دیے کہ حضرت خدیجہ نے آپکو شادی کا پیغام بھیجا۔آپ نے اس پیغام کو قبول کرلیا اور 25 سال کی عمر میں ان سے شادی کر لی۔اس وقت بی بی خدیجہ کی عمر 40 سال کی تھی۔

آنحضرتﷺ کے اخلاق و اطوار شروع سے ہی نہایت شستہ تھے۔آپ زبان کے میٹھے اور دل کے ساتھ تھے۔کبھی جھوٹ نہ بولتے تھے،اسی وجہ سے آپ کو صادق اور امین کا لقب ملا۔ان کے مزاج میں تحمل کوٹ کوٹ کربھرا تھا۔دشمن کے ساتھ بھی نرمی اور خوش اسلوبی کے ساتھ پیش آتے تھے۔رحم وکرم کے پتلے تھے۔ کسی سے کبھی انتقام نہ لیا نہ کسی کے لئے بد دعا کی۔فقیر اور درویشی کی زندگی بسر کرتے۔راحت و آسائش سے کوسوں دور رہتے۔سارے عرب کے تاجدار تھے مگر بوریئے پر سوتے اور کھجوریں کھا کر گزارا کرتے تھے۔عبادت کا یہ حال تھا کہ ساری ساری رات یاد الٰہی میں گزار دیتے۔بت پرستی سے آپ کو سخت نفرت تھی۔

شہر سے باہر غار حرا میں عبادت میں زیادہ وقت گزارتے تھے۔اسی غار میں آپ پر وحی نازل ہوئی۔حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بشارت دی کہ خدا نے آپ کو دنیا کی ہدایت کے لیے چن لیا ہے اور اپنا پیغمبر بنایا ہے۔اسی وجہ سے آپکو محمد مصطفیٰ کہتے ہیں۔اس بشارت کے وقت آپ کی عمر 40 سال کی تھی۔آپ نے اپنے نبی ہونے کا اعلان کیا اور اپنی قوم میں اسلام کی تبلیغ شروع کردی۔آپ کی تعلیم یہ تھی کہ خدا کی ذات واحد و لاشریک ہے،وہی سب کو پیدا کرنے والا اور رزق پہنچانے والا ہے،اس کے نزدیک سب انسان برابر ہیں۔امیر غریب بندہ وصاحب، عربی و عجمی، گورے اور کالے میں کوئی تمیز نہیں۔وہ ازل سے موجود ہے اور ابد تک قائم رہے گا۔ہر انسان پر اسکی عبادت کرنی چاہیے۔محبت و مساوات انسانیت کی دلیل ہیں۔پڑوسی کو ستانا بدی ہے، بدی اور ظلم کا انجام دوزخ کی آگ اور نیکی اور محبت کا پھل جنت ہے۔ذات پات اور اونچ نیچ کے جھگڑے شیطان نے پیدا کیے ہیں۔خدا کی ذات کے ساتھ کسی اور وجود کو ساجی یا شریک بنانا کفر ہے۔بت پرستی، دروغ گوئی، دختر کشی اور شراب نوشی گناہ عظیم ہیں۔راہ مولا میں روپیہ پیسہ تقسیم کرنا ہر صاحب ایمان پر فرض ہے۔

کافر اور جاھل لوگ آپ کی تعلیم سے چڑ گئے۔آپ کی مخالفت اس قدر بڑھ گئی کہ آپ کو مجبوراً مکہ مکرمہ سے مدینہ شریف کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔یہ واقعہ 622ء کا ہے۔ اسلامی کلینڈر یعنی سال ہجری اسی سن سے شروع ہوتا ہے۔مدینہ میں لوگوں نے آپ کو سر آنکھوں پر بٹھایا۔آہستہ آہستہ لوگ آپ پر ایمان لانے لگے۔آپ کی تعلیم صداقت اور سادگی پر مبنی تھی۔اس لیے اسلام بہت جلد پھیلنے لگا۔632 عیسوی میں آپ کی وفات کے وقت مسلمان سارے عرب پر چھا چکے تھے۔آج دنیا میں کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں مومن نہ بستے ہوں۔اہل اسلام کا عقیدہ ہے کہ حضرت محمدﷺ کے بعد دنیا میں کوئی پیغمبر نہیں آئے گا۔اس لیے آپ کو خاتم المرسلین یا خاتم الانبیاء کہتے ہیں،یعنی آپ دنیا کے آخری نبی ہیں۔

حضرت محمدﷺ پر ایک تقریر پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں!