یوم آزادی پر مضمون | Independence Day Essay In Urdu

0

ہندوستان 15 اگست 1947ء کو آزاد ہوا تھا۔ انگریزوں۔ نے ہندوستان کو لگ بھگ 200 سال تک غلام بنائے رکھا پہلے ہندوستانی آپس میں بٹے ہوئے تھے۔یہاں کے راجے مہاراجے ایک دوسرے کے خلاف تھے۔ وہ آپس میں جھگڑتے رہتے تھے بہت سے راجے عوام پر بھی ظلم کرتے تھے اس لئے عوام بھی بادشاہوں کے خلاف تھے۔

انگریزوں نے ہندوستانیوں کی آپسی پھوٹ کا فائدہ اٹھایا اور آہستہ آہستہ سارے ہندوستان پر قبضہ کرلیا۔ وہ ہندوستان میں تجارت کی غرض سے آئے تھے مگر یہاں اپنی حکومت قائم کرلی۔

جب انگریزوں نے دیکھا کہ اب ہندوستان پر وہ پوری طرح قابض ہوگئے ہیں تو انہوں نے یہاں لوٹ کھسوٹ شروع کردی۔ یہاں کے اعلی کاریگروں کو ختم کرکے رکھ دیا۔ وہ ہندوستان سے خام مال انگلینڈ لے جاتے تھے اور پھر وہاں کے کارخانوں میں تیار کرکے بہت مہنگے داموں ہندوستانیوں کے ہاتھ فروخت کرتے تھے۔بہت سا روپیہ وہ اپنی تنہا کی شکل میں لے لیتے تھے اس طرح انگریزوں نے ہندوستان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنا شروع کر دیا تھا اور اس کے ساتھ ہی وہ ہندوستانیوں پر ظلم بھی کرنے لگے تھے۔ اس طرح ہندوستانیوں کے دل میں اپنا دیش آزاد کرنے کا خیال پیدا ہوا۔

ہندوستانیوں نے اپنی آزادی کی پہلی جنگ 1857ء میں لڑی جسے انگریزوں نے غدر کا نام دیا۔چند ایک وجوہات کی وجہ سے ہماری یہ جنگ کامیاب نہ ہوئی اور فتح یاب ہونے کے بعد انگریزوں نے پہلے سے بھی زیادہ ظلم کرنے شروع کر دیے۔

تیس چالیس سال خاموش رہنے کے بعد ہندوستانیوں نے آزادی کے لئے دوبارہ جدوجہد شروع کردی۔ پچھلی صدی کے آخر میں انڈین نیشنل کانگریس کی بنیاد رکھی گئی بعد میں مہاتما گاندھی بھی اس تحریک میں شامل ہوگئے۔مہاتما گاندھی نے جدوجہد کو ایک نیا رنگ دیا۔ آپ نے عدم تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ مہاتما گاندھی کی شخصیت سے متاثر ہو کر علی برادران، پنڈت موتی لال نہرو، حکیم احمد خان، ڈاکٹر انصاری، پنڈتجواہرلالنہرو، شیخ عبداللہ، جے پرکاش نارائن، ماسٹر تارا سنگھ، ڈاکٹر راجندر پرساد، ڈاکٹر ذاکر حسین وغیرہ بڑے بڑے لوگوں نے آپ کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا۔ ان سب لوگوں کی خدمت اور قربانیوں کی بدولت انگریز سرکار ہندوستان کو آزاد کرنے کے لئے مجبور ہوگئ اور آخر 15 اگست 1947ء کو انگریزوں نے ہندوستان تقسیم کرکے اپنا بوریا بستر باندھ لیا اور یہاں سے چلے گئے۔ اس طرح 15 اگست 1947ء کو ہندوستان آزاد ہو گیا۔

اس آزادی کی خاطر ہندوستانیوں نے کافی قربانیاں دی تھیں۔ کشمیر میں کشمیر کے محبوب لیڈر شیخ عبداللہ کو یہاں کے حکمران نے قید کیا گیا تھا اور انگریزوں کو خوش کرنے کے لئے کشمیر کے حاکموں نے شیخ عبداللہ ،کانگرنس لیڈروں اور نیشنل کانفرنس کے ورکروں پر سخت ظلم کیے انھیں جیلوں میں ٹھونسا گیا، لاٹھیاں برسائی گئیں،جائیدادوں پر قبضہ کیا گیا۔

پنجاب میں سردار بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ جلیان والا باغ میں نہتے پنجابیوں پر گولیاں چلا کر ہزاروں لوگوں کو شہید کر دیا گیا۔ بہت سے اکالی بھائیوں کو جیلوں میں بند کر دیا گیا اور گولی لاٹھی کا خوب استعمال ہوا۔یوپی میں منگل پانڈے اور اس کے ساتھیوں کو تنگ کیا گیا۔ بنگال میں سبھاش چندر بوش وغیرہ کو قید کر لیا گیا اور دیش بھگتوں کو خوب تنگ کیا گیا۔ وہ کونسا ظلم تھا جو ان دیش بھگتوں پر نہیں ہوا تھا۔یہی حال باقی صوبوں کا بھی تھا سارے ہندوستان میں ظلم کی لہریں چلتی رہی تھیں۔

پہلے تو ہندوستانی انگریزوں کے تحت آزادی چاہتے تھے مگر ان کے ظلم دیکھ کر لاہور کے کانگریسی اجلاس میں پنڈت جواہر لال نہرو نے مکمل آزادی کا نعرہ دیا۔ اگرچہ انگریزوں نے ہندوستانیوں میں پھوٹ ڈال کر راج کرنے کی کافی کوشش کی مگر اب قوم بیدار ہوچکی تھی۔ اگرچہ انگریز یہاں فرقہ پرستی پیدا کر چکے تھے اس کے باوجود ہندوستان کے ہندو اور مسلمان وغیرہ سب یہی چاہتے تھے کہ انگریز ہندوستان چھوڑ جائیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد انگریزوں کی اپنی حالت بھی دگرگوں ہوگئی تھی۔ دنیا کے حالات بدل گئے تھے اس لیے مجبور ہو کر انگریزوں نے ہندوستان کو آزاد کر دیا۔

اب ہر سال 15 اگست کا دن بڑی دھوم دھام کے ساتھ منایا جاتا ہے اس دن سارے ہندوستان میں آزادی کی چھٹی ہوتی ہے۔ سکولوں اور کالجوں میں اسپیشل پروگرام ہوتے ہیں۔ سرکاری طور پر بھی جگہ جگہ پریڈ کی جاتی ہے۔سرکاری عمارتوں اور دیگر مقامات پر قومی جھنڈے لہرائے جاتے ہیں۔ اس روز کوئی بھی ادارہ قومی جھنڈا لہرا کر اسےسلامی دی سکتا ہے۔ رات کے وقت لوگ روشنی کرتے ہیں۔ بچوں میں مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں۔سرکار کی طرف سے ہر ضلع ہیڈکوارٹر پر خاص پروگرام ہوتا ہے۔ہندوستان کا راشٹرپتی اس روز قوم کو خاص پیغام دیتا ہے۔ 15 اگست کو ہندوستانی بڑی دھوم دھام کے ساتھ مناتے ہیں اور اسے ہمارا قومی میلہ قرار دیا گیا ہے۔ جہاں جہاں ہندوستان کے سفارتخانے ہیں وہاں بھی یہ دن بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔

اگرچہ ہم نے آزادی حاصل کر لی ہے مگر اسے مکمل آزادی تب ہی کہا جا سکتا ہے جب ہم پورے ہندوستان اور سماج کو اس راستہ پر لے کر چلیں جس راستہ پر دوسرے آزاد دیش چلتے ہیں۔ انگریزوں نے ہندوستان میں بہت سی برائیوں کو جنم دیا تھا جب تک یہ برائیاں قائم ہیں ہم اپنے آپ کو مکمل طور پر آزاد نہیں کہہ سکتے۔ انگریزوں کے ساتھ ساتھ جب تک یہ برائیاں بھی یہاں سے دفع نہیں ہو جاتیں تب تک ہم اپنے آپ کو کیسے آزاد کہہ سکتے ہیں۔ اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم سب ملکر اپنے دیش کی برائیوں کو دور کریں۔

ہندوستان میں انگریزوں نے پھوٹ ڈالو اور راج کرو کی پالیسی اپنائی تھی۔ ہمیں آزاد ہوئے کافی سال گزر گئے ہیں مگر یہ بات ہمارے لئے باعث شرم ہے کہ ابھی تک ہم فرقہ پرستی سے اپنے آپ کو علیحدہ نہیں کر سکے۔ انسان کو انسان سے پیار کرنا چاہیے، سب انسان برابر ہیں مگر افسوس ہے کہ ہندوستان میں کہیں ہندو مسلم کہیں ہریجن غیر ہریجن کے درمیان نفرت ہے۔آے دن فساد ہو جاتے ہیں۔ کہیں زبان، مذہب، نسل اور صوبہ کے نام پر تو تو میں میں ہوجاتی ہے۔ ہمیں ان باتوں سے اوپر اٹھنا ہوگا اگر ہم ایسا نہ کر سکے تو اس سے ہندوستان کو کافی نقصان ہوگا۔ اسی پھوٹ کی وجہ سے ہم پہلے بھی غلام ہوئے تھے اور دوبارہ بھی تباہ وبرباد ہو سکتے ہیں۔

ہندوستان کے سرمایہ دار سماج کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ دیش میں بیکاری،مہنگائی وغیرہ بڑھ رہی ہے۔ غریب آدمی اور زیادہ غریب ہورہے ہیں، مزدوروں کو ایکسپلائٹ کیا جارہا ہے رشوت خوری کا بازار گرم ہو رہا ہے، سیاست بھی شیطان کا کھیل بن کر رہ گئی ہے۔ لوگوں کا اخلاقی معیار اور قدریں گر گئی ہیں۔ اگر ہم نے آزادی کا پورا فائدہ لینا ہے اور اپنے آپ کو آزاد شہری کہلوانا ہے تو ہمیں سخت ہاتھوں سے ان برائیوں کو ختم کرنا ہوگا۔

سیاست کو ایک مقدس پیشہ میں بدلنا ہوگا، سرکاری دفتروں میں سے برسٹ چار کو ختم کرنا ہو گا۔جو لوگ فرقہ پرستی کو ہوا دیتے ہیں انھیں سخت ہاتھوں سے دبانا ہوگا۔جو سرمایہ دار ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کرتے ہیں سماج کو ان کے چنگل سے بچانا ہو گا۔ اس لئے سرکار اور عوام دونوں کو مل کر آزادی کی بقاء کے لئے سماجی برائیوں کے خلاف اس طرح کی جدوجہد کرنی چاہیے جس طرح انہوں نے انگریزوں کے خلاف کی تھی۔تبھی ہم آزاد ہندوستانی کہلانے کے مستحق ہوں گے