Advertisement

لڑکے لڑکیوں کا ایک ساتھ جماعت میں بیٹھ کر لکھنا پڑھنا مخلوط تعلیم کہلاتا ہے۔تعلیم کا یہ طریقہ کچھ مدت سے ہندوستان اور پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں کافی رواج پا چکا ہے۔ہمارے یہاں تعلیم سے متعلق کئی ایک مسائل پریشانی کا سبب ہیں۔ ان مسائل میں ایک مسئلہ مخلوط تعلیم کا ہے۔

Advertisement

اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ عورتوں کی زندگی گھر کی چار دیواری تک محدود رہنی چاہیے۔اس لئے ان کو ایسی تعلیم دینا چاہیے جو گھریلو معاملات میں مفید اور معاون ثابت ہو۔اگر اس رائے کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ لڑکیوں کا تعلیمی نصاب لڑکوں کے نصاب تعلیم سے بالکل مختلف ہونا چاہیے۔اس صورت میں مخلوط تعلیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

لیکن جب ہم گردوپیش کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ رائے ہماری نظر میں ججتی نہیں۔عورت کو گھر کی حدود کے اندر قید کر دینا وقت اور فطرت کے تقاضوں کے منافی ہے۔پنڈت نہرو نے ہندوستان کی نسبت فرمایا تھا کہ ملک کی آدھی آبادی (یعنی عورتوں) کو صحیح قسم کی تعلیم اور آزادی سے محروم رکھنا ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔مغربی ملکوں کی عورتوں نے ہماری آنکھوں کے سامنے مردوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کام کرکے ثابت کردیا ہے کہ ان کے دماغ کھانا پکانے اور برتن صاف کرنے کے علاوہ اور بھی ہزاروں کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ہمارے ملک میں مخلوط تعلیم کے خلاف سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ نوجوان لڑکے لڑکیوں کا اجتماع جنسی جذبات کو بھڑکا کر بد اخلاقی کا مؤجب بنتا ہے۔اس میں شک نہیں کہ اس اعتراض کے حق میں کئی دلائل پیش کی جا سکتی ہیں لیکن ٹھوس تجربات اور اعداد و شمار کا ملاحظہ کیا جائے تو یہ دلائل پوری ثابت نہ ہو نگی۔اور یہ اعتراض بے بنیاد دکھائی دے گا۔اس میں کوئی کلام نہیں کہ ہمارا سماجی نظام مخلوط تعلیم کے لیے راس نہیں۔بات یہ ہے کہ آٹھ دس سال کی عمر تک ہر طبقہ کے بچوں کو ایک دوسرے کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور کھیلنے کودنے کی آزادی نصیب رہتی ہے۔لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کو چاہتی ہیں، پیار کرتی ہیں، لیکن کسی بھی ماں باپ کو یہ گوارا نہیں گزرتا۔ اب کیا ہوتا ہے۔

پہلی ہی جماعت سے یا پانچویں جماعت سے لڑکے لڑکیوں کو الگ الگ مدرسوں میں داخل کیا جاتا ہے۔علیٰحدگی اور دوری کا یہ سلسلہ عام طور پر میٹرک کی جماعتوں تک چلتا ہے۔اس دوران میں لڑکے لڑکیوں میں جنسی شعور پیدا ہونے لگتا ہے۔کالج میں پہنچتے پہنچتے جنسی بیداری شروع ہوجاتی ہے۔اب جب کالج میں لڑکے لڑکیوں کو ایک ساتھ یکایک اکٹھا بٹھا دیا جاتا ہے تو یہ چنگاریاں آگ بن کر بھڑک اٹھتی ہیں۔

Advertisement

اگر لڑکے لڑکیوں کو شروع سے ہی ایک دوسرے کے قریب رہنے دیا جائے اور ان پر کسی قسم کی پابندی نہ ہو تو وہ ایک دوسرے کو سمجھنے لگتے ہیں اور ایک دوسرے کے لئے کوئی پراسرار عجوبہ نہیں رہتے۔اگر لڑکے لڑکیوں کو ایک ساتھ تعلیم دی جائے تو دونوں میں غیریت یا بیگانگی نہیں رہتی۔دونوں میں مساوات کا خیال پیدا ہوجاتا ہے۔ لڑکیوں میں احساس کمتری نہیں ہوتا، اس سے نہ صرف لڑکیوں کو بلکہ ملک کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔

لڑکوں کی بے راہ روی اور بد اعتدالی کا سب سے اچھا علاج یہ ہے کہ آوارہ سے آوارہ لڑکے کو بھی اگر چار پانچ لڑکیوں کے بیچ بٹھا دیا جائے تو آن واحد میں اس کے ہوش ٹھکانے آ جاتے ہیں۔اس میں ضمیر کی آواز اس کے برے خیالات اور جذبات پر غالب آجاتی ہے اور وہ جب سمجھتا ہے کئی لوگ اس کے نیک چلن پر اعتقاد رکھتے ہیں تو وہ اس اعتقاد کو قائم رکھنے میں اور بھی زیادہ کوشش کرتا ہے اور اس میں پاس نفس یا غیرت کا خیال پختہ ہوجاتا ہے۔

یہ ایک نفسیاتی اصول ہے کہ اگر آپ محض شک یا وہم کی بنا پر کسی لڑکے کو بار بار برا قرار دیں گے تو وہ کھل جائے گا اور ڈھیٹ ہو کر واقعی برائی پر مائل ہو جائے گا۔اس کے برعکس اگر آپ کسی نوجوان کے عیوب پر پردہ ڈالیں اور بار بار اس کے اخلاق سے متعلق اچھی رائے کا اظہار کریں تو آخر اس کے اندر اچھے اخلاق پیدا ہو جائیں گے اور لوگوں کی اچھی رائے پر پورا اترنے کے لیے وہ برائی یا برے فعل سے باز رہے گا۔

ملکی ترقی اور تعمیر میں لڑکیوں کا اتنا ہی حصہ ہونا چاہیے جتنا کے لڑکوں کا ہے۔ان کی تعلیم بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی کے لڑکوں کی۔اب لڑکیوں کے لیے الگ کالج کھولنے سے بہت زیادہ خرچ اٹھے گا۔ہندوستان اور پاکستان ایک مفلس ملک ہیں اور تمام لڑکیوں کے لئے جابجا علیحدہ کالج کھولنے کا مقدور نہیں رکھتے۔صرف کالج کی عمارات بنانے سے کام نہیں چلتا۔پروفیسروں اور لیکچراروں کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ اس لئے اخراجات اور بھی بڑھیں گے اور پھر ابتدائی مرحلوں میں ایسی پڑھی لکھی عورتوں کی شدید کمی ہے جو کالج میں معلمی کا کام انجام دے سکیں۔اس لئے ملک و قوم کی بھلائی اسی میں ہے کہ جابجا مخلوط تعلیم جاری کی جائے۔

Advertisement