سائنس کے نقصانات

0

اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کو سائنس سے بڑا فیض پہنچا ہے۔اس سے انسان کو ہر قسم کی راحت ملی ہے۔ زندگی کی کئی دشواریاں دور ہوگئی ہیں۔اس نے انسان کو کئی طرح کی بیماریوں سے نجات دی ہیں لیکن یہ خیال کرنا صحیح نہیں کہ یہ خالص برکت ہے۔اس کا تاریک پہلو بھی ہے۔اس نے انسانیت کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔سائز سے کئی قسم کے نقصانات بھی ہیں۔

دراصل سائنس کا کوئی قصور نہیں۔ سائنس کے استعمال پر اسکی برکات یا اس کے نقصانات کا دارومدار ہے۔اگر انسان سائنس کا غلام نہ ہو بلکہ آقا ہو اور راہ راست سے نہ بھٹکے تو سائنس ایک بے نظیر برکت ثابت ہوسکتی ہے۔بہرحال سائنس کی برائیوں سے ہم آنکھیں نہیں موند سکتے۔

بنی نو انسان کو سائنس کی طرف سے سب سے بڑا خطرہ ہولناک اور تباہ کن ہتھیاروں کی ایجاد ہے۔سائنس کی مدد سے انسان نے جو ایٹم بم تیار کیا ہے اس سے نہ صرف تہذیب بلکہ خود انسانیت کے مٹ جانے کا اندیشہ پیدا ہو گیا ہے۔40 سال پہلے جو بم امریکہ نے جاپان کے شہر ہیروشیما پر گرایا تھا اس سے ہزاروں انسان دیکھتے دیکھتے لقمۂ اجل ہو گئے تھے۔ہزاروں بیمار ہوکر بعد میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر ے۔میلوں تک اس بم نے اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔چند ہی لمحات میں شہر پیوند زمین ہو گیا تھا۔ہر طرف اس بم سے ہاہا کار مچ گئی تھی۔ جو مصائب لوگوں پر نازل ہوئے اس کے تصور سے ہمارے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔اب چالیس سال بعد جو ایٹم بم انسان کے قبضے میں ہیں ان کی ہلاکت خیزی اور تباہ کاری کا اندازہ بھی ممکن نہیں۔یہ بم پہلے بم سے کئی گناہ خطرناک اور تباہ کن ہیں۔ اگر خدانخواستہ تیسری عالمگیر جنگ چھڑ جائے تو دنیا کا خدا ہی حافظ ہے۔

موجودہ جنگ میں نہ صرف فوجی ہی مصائب و آلام کا نشانہ بنتے ہیں بلکہ شہری اور دیہاتی عوام بھی آفات و مظالم کا شکار ہوتے ہیں۔ایٹمی ہتھیاروں کے علاوہ اور بھی ایسے ہتھیار ایجاد کرلئے گئے ہیں جن سے انسان دوزخ کی اذیت پائیں گے۔مثلا زہریلی گیس اور جراثیم۔یہ ہتھیار بےشک انسان کی اخلاقی پستی کو ظاہر کرتے ہیں لیکن جب دشمن کسی قوم پر حملہ کرتا ہے تو وہ قوم ہر حربہ استعمال کرے گی خواہ انسانیت سے بعید ہو۔ایک مشہور کہاوت ہے کہ جنگ اور عشق میں ہر چیز جائز ہے۔

سائنس نے انسان کو اخلاقی قدروں سے محروم کردیا ہے۔وہ اب بدی اور ظلم پر تلا ہوا ہے۔ہر قوم اپنا وقار قائم رکھنا چاہتی ہے۔ہر قوم ترقی کے میدان میں دوسری قوموں کو مات کرنے پر تلی ہوئی ہے۔اس آپادھاپی کے عالم میں قومیں ہر قسم کے ہتھکنڈوں سے کام لے رہی ہیں اور اپنی اغراض کی خاطر ہر طریقہ جائز و ناجائز اپنانے پر آمادہ ہیں۔اصول پرستی ختم ہو چکی ہے، مذہب کی وقعت گھٹ رہی ہے،اس کے ساتھ اخلاق کا دیوالہ نکل رہا ہے،اور فضائل زائل ہو رہے ہیں۔سائنس نے مادی ترقی پر زور دیا ہے اور روحانیت پر زور نہیں دیا جاتا جس کی وجہ سے انسان کو خطرہ درپیش ہے۔نظام عالم تہس نہس ہو جانے کا خطرہ ہے۔دنیا کا کلیان لوگوں کو مذہب، اخلاق اور روحانیت پر مائل کرنے میں ہے۔

جب تک لوگوں میں انسان دوستی، خدا ترسی اور انصاف پروری کے جذبات پیدا نہ ہوں گے دنیا تباہی کے گڑھے میں گر جائے گی۔اب ایسے نظام کی ضرورت ہے جس میں مساوات، آزادی، بھائی چارہ، محبت، حق پرستی اور رحم و فیاضی بنیادی اصولوں کی حیثیت اختیار کریں۔

سائنس نے انسان کو ایک مشین بنا کے رکھ دیا ہے۔اس کی سدھ بدھ جاتی رہی ہے، اس کا دماغ معطل ہے۔ وہ ہمہ تن دولت کمانے میں مصروف ہے۔وہ ہر دم ترقی کا خواہاں ہے اور دوسروں پر سبقت لے جانے کو بیتاب رہتا ہے۔رقابت اور حسد اس کی رگ رگ میں سما گئی ہیں۔وہ ہر میدان میں دوسروں کو نیچا دکھانا چاہتا ہے۔وہ قوت اور روپ کا طالب ہے۔اپنے فائدے کے لیے وہ دوسروں کا خون بہانے سے دریغ نہیں کرتا۔وہ ہر حیلے بہانے سے دولت کے انبار لگانا چاہتا ہے اور عیش و عشرت اس کا مقصد حیات ہے۔اسکی اس بےراہروی سے خدا کی پناہ! انسان کو چاہیے کہ وہ دوسروں کی خوشی کے ساتھ خوش ہو رہے۔اور ہر چھوٹی بڑی خوشی غمی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔

سائنس کی ایجادات سے ایک اور بڑا خطرہ پیدا ہورہا ہے، وہ فضا کی ناپاکی۔کاروں، بسوں، لاریوں، سکوٹروں سے جو پیٹرول کا دھواں اور بدبو نکلتی ہے اس سے ہوا میں آلائش اور غلاظت پھیل رہی ہے جو بیماریوں کا سبب ہے۔اب وہ وقت دور نہیں جب بڑے بڑے شہروں میں سانس لینا بھی دشوار ہو جائے گا۔کارخانوں کے کیمیاوی زہر بھی غضب ڈھا رہے ہیں۔ہوا اور پانی دونوں مسموم ہوجاتے ہیں۔ڈی آئی ٹی اور اس قسم کی دوسری جراثیم کش دوائیاں بھی ہماری غذا میں زہر بھر رہی ہیں۔

مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ جہاں ایک طرف سائنس کی ایجادات نے انسان کو چاند تک پہنچا دیا ہے وہیں دوسری طرف اس کے بہت سے منفی پہلو بھی ہیں جن کی وجہ سے انسان آج طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔اس لئے ہمیں چاہئے کہ سائنس کے استعمال کو بڑے احتیاط سے عمل میں لائیں۔