خوشی کی تقریب پر ایک مضمون

0

انسان کی زندگی میں خوشی کے موقعے بھی آتے ہیں اور غم کے بھی۔گویا دکھ اور سکھ کا جولی دامن کا ساتھ ہے۔آج ہم خوشی سے سرشار ہیں تو کل غم کا شکار ہو سکتے ہیں۔کسی کو بھی معلوم نہیں کہ آنے والے پل میں کیا ہونے والا ہے۔مصیبت کا پہاڑ ٹوٹنے والا ہے یا گنج شائیگاں نصیب ہوگا۔کوئی نہیں جانتا کہ عالم غائب سے کیا ظہور میں آنے والا ہے۔انسان معذور و مجبور ہے۔یعنی?

A post shared by Urdu Notes (@urdu_notes) on Jul 13, 2018 at 8:26am PDT

نیز دنیا میں خوشی اور غمی کے نظارے باہم پائے جاتے ہیں۔ایک جانب مسرتوں و راحت کے شادیانے بج رہے ہیں تو دوسری طرف نوحہ گریہ کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔بظاہر دنیا میں غم کے مواقع خوشی کے اوقات سے زیادہ ہیں۔اسی لئے تو دنیا کو دارالمحن کا نام دیا گیا ہے۔باوجود اس کے انسان کے اپنے نظریۂ حیات پر بہت کچھ مدار ہے۔پر امید اور حوصلہ مند رہنے سے رنج و غم کی شدت کم ہو جاتی ہے اور اس کے برعکس ہمت ہارنے اور مایوس ہونے سے مصائب و آلام بڑھ جاتے ہیں۔

زندگی میں اکثر خوشی اور رنگ رلیاں منانے کا وقت آتا ہے۔مثلا بیاہ، شادی، ہولی، دیوالی، دسہرہ، نام کرن اور جنم دن کی تقاریب وغیرہ۔پچھلے سال میرے ایک دوست کے چھوٹے بھائی عرف پپو کے منڈن سنسکار کی رسم ادا کی گئی۔انہوں نے بہت سے رشتہ داروں اور دوستوں کو اس موقع پر مدعو کیا۔مجھے بھی اس تقریب میں شمولیت کی دعوت دی۔ایک دن شام کو گھر لوٹا تو میز پر ایک رقعہ پایا۔اس دعوت نامے میں مذکور تھا کہ عزیز پپو کا منڈن سنسکار دوسرے دن صبح 9بجے عمل پذیر ہوگا۔چناچہ میں وقت مقررہ سے نصف گھنٹہ قبل دوست کے گھر پہنچ گیا۔

جوں ہی دوست کی گلی کے سرے پر پہنچا کسی شاندار تقریب کے سامان دکھائی دیے۔میں نے دیکھا کہ دوست کہ گھر کے عین سامنے ایک بڑا ٹنٹ نصب کیا ہوا ہے۔فرش پر دریاں بچھی ہیں، قناتیں سجی ہیں۔غبارے اور جھنڈیاں آویزاں ہیں،بیچ میں قالین بچھا ہے۔ ایک طرف ہون کنڈ اور ہون کی سامگری دھری ہے۔ساتھ ہی چندن کی لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے پڑے ہیں۔دوست اور اس کی بیوی پپو کو جھولی میں لیے بیٹھے ہیں۔ان کے مقابل پنڈت جی براجمان ہیں اور ہون کی تیاری میں مصروف ہیں۔پچاس ساٹھ مہمان صف آرا ہیں اور مزید تشریف لا رہے ہیں۔

میں دوست سے تھوڑی دور کونے میں دبک کر بیٹھ گیا۔ا
عین 9 بجے پنڈت جی نے اس شبھ تقریب کا آغاز کیا۔‏آدھ پون گھنٹہ منتر اچارنے کے بعد پنڈت جی نے ہون میں آہوتی ڈلوانا شروع کیا۔تیس چالیس منٹ میں یہ کام انجام پذیر ہوا۔ اس کے بعد پنڈت جی نے واعظانہ انداز میں حسب محل و اپدیش دیا اور بچے کے حق میں دعا فرمائی کہ خدا اسے نیک سیرت اور دراز زندگی عطا کرے، یہ خوب پھلے پھولے اور خاندان کا نام روشن کرے۔

اس کے بعد رسم کا اصلی عملی حصہ شروع ہوا۔یعنی بچے کے بال مونڈنے کا دشوار کام۔یہ وہ وقت ہے جب حجام کی ہنر مندی، فراست اور بیدار مغزی کا امتحان ہوتا ہے۔جوں ہی حجام نے ایک ہاتھ سے بچے کے سر کو تھاما اور دوسرے ہاتھ سے استرا چلانا شروع کیا! بچہ زور شور سے رونے چلانے لگا۔حجام نے بچے کے والدین کو تاکید کی کہ اسکے سر کو مظبوطی سے پکڑ رکھیں ورنہ ذرا سی غفلت یا لغزش سے بچے کے سر میں گہرا زخم لگ سکتا ہے۔جوں ہی استرا حرکت میں آتا بچہ سر چھڑانے کے لیے جدوجہد کرتا اور سر ہل جاتا۔ہ
حجام جھٹ استرا کو اٹھا لیتا۔جب دوبارہ استرا سر کو چھوتا اور بال مونڈنے لگتا تو پھر بچہ ہاتھ پاؤں مارتا اور حجام پھرتی کے ساتھ اپنا ہاتھ کھینچ لیتا۔کافی دیر تک یہ کشاکشی جاری رہی آخر خدا خدا کرکے یہ کام بھی سرے چڑھا۔

اس کے بعد بچے کو نہلا دھلا کر نۓ کپڑے پہنائے گئے۔ہر طرف سے مبارکباد کی صدائیں اٹھیں۔حاضرین نے تحفے تحائف اور نذرانے پیش کیے۔اقارب اور احباب نے حسب مقدور نقد و جنس بطورھدیہ دوست کی نظر کیا۔میں نے بھی پانچ روپے نقد اور کچھ کھلونے بطور شگن دیے۔حجام کو مناسب معاوضہ ملا اور پنڈت جی نے بھی خاطر خواہ انعام واکرام پایا۔تقریب کے اختتام پر حاضرین میں لڈو تقسیم کئے گے اور سبھی مہمان یکے بعد دیگرے رخصت ہوئے۔میں بھی مبارک باد کہہ کر گھر کو لوٹ آیا۔