Advertisement
Advertisement

سرینگر سے لگ بھگ تیس میل کی دوری پر ایک دلفریب اور حسین جھیل واقع ہے جس کا نام ولر جھیل ہے۔یہ ایشیا میں میٹھے پانی کی بہت بڑی جھیل ہے۔اس کی لمبائی ١٣ میل اور چوڑائی ٦ میل ہے۔یہ سوپور اور بانڈی پور کے درمیان پھیلی ہوئی ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ اس کی وسعت کم ہو رہی ہے۔

Advertisement

جھیل ولر کی تاریخ کے ساتھ عجیب و غریب داستانیں وابستہ ہیں۔وادی کشمیر کی بوڑھی عورتوں کا قول ہے کہ اس جھیل کے نیچے ایک شہر آباد تھا جو زمانہ قدیم میں ہی ایک زلزلہ کے سبب تباہ و برباد ہوگیا۔اس زمانے کی تہذیب سے متعلق یہ عام خیال ہے کہ لوگ بڑے متمدن اور ترقی یافتہ تھے۔اور موہنجوڈارو کی کلچر کی بہت سی باتیں اس کی تہذیب سے ملتی جلتی تھیں۔گویا کشمیر کا تمدن قریباً پانچ ہزار سال پرانا ہے۔تاریخ بڑشاھی میں مذکور ہے کہ سلطان زین العابدین نے اس جھیل کے وسط میں ایک مصنوعی جزیرہ زینہ لنک بنایا تھا۔اس پر ایک مسجد بھی تعمیر کروائی تھی اور بادشاہ تن تنہا اس مسجد میں عبادت و ریاضت میں محو ہوا کرتا تھا۔

جھیل ولر کا نظارہ بہت دلفریب ہے۔ اگر اس کے کنارے پر کھڑا ہوکر نگاہ ڈالی جائے تو پانی ہی پانی دکھائی دیتا ہے۔گویا یہ ایک چھوٹا سا سمندر ہے۔اس کے چاروں طرف پہاڑیاں ہیں اور جھیل کی وسیع صاف و شفاف سطح یوں چمکتی ہے گویا فطرت کی انگوٹھی میں نگینہ جڑا ہے۔صبح اور شام کے وقت اس جھیل کا منظر خاص طور پر روح پرور اور دلربا ہوتا ہے۔آفتاب کے طلوع اور غروب کا نظارہ قابل دید ہوتا ہے۔

Advertisement

کشمیر میں جو سیاہ سیروسیاحت کے لیے آتے ہیں وہ جھیل ولر کو دیکھنے ضرور جاتے ہیں۔جھیل میں ہر وقت کشتیاں تیرتی دکھائی دیتی ہیں ان کشتیوں میں سیاہ سوار ہو کر جھیل کے دلکش نظاروں سے لطف اٹھاتے ہیں۔اس جھیل کی ایک ناگوار خصوصیت یہ ہے کہ اس میں دوپہر کے بعد طوفان آتا ہے۔اس طوفان کی وجہ سے آئے دن حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں۔

Advertisement

اس کے باوجود لوگ کشتیوں میں بادبان لگائے جھیل کی سطح پر گھومتے پھرتے ہیں اور اسکی سیر سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔مچھلی کا شکار ہر وقت ہوتا رہتا ہے۔گرمی کے موسم میں بڑی مچھلیاں پکڑی جاتی ہیں۔پیشہ ور ماہیگیر اس جھیل کے فیض سے اپنی روزی کماتے ہیں۔ان کی دلیری قابل داد ہوتی ہے وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر مچھلی کا شکار کرتے ہیں اور طوفان کا مقابلہ کرتے ہیں۔ان کی ہمت اور جواں مردی کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ وہ جدوجہد کی زندگی سے مانوس ہیں اور لہو پسینہ ایک کرکے اپنا اور اپنے عیال واطفال کا پیٹ پالتے ہیں۔

جھیل ولر کی سیر کے لئے حکومت نے بہت سی سہولتیں بہم پہنچائی ہیں۔سوپور سے بانڈی پور تک جھیل کے اردگرد ایک کشادہ سڑک بنائی گئی ہے۔آنے جانے کے لیے سرکار نے بسوں کا انتظام کر رکھا ہے۔اگر سری نگر سے صبح روانہ ہوں تو دوپہرکاکھانا جھیل کے کنارے پہاڑی کے دامن میں بیٹھ کر کھا سکتے ہیں۔جہاں فضا میں سکون طاری ہوتا ہے اور ہر طرف فطرت کی عظمت اور اسکا حسن دل کو سرور وراحت دیتا ہے۔کچھ دیر کے لیے انسان کا دماغ زندگی کے روزمرہ کے غموں اور فکروں سے یکسر آزاد ہو جاتا ہے۔

Advertisement

سکولوں اور کالجوں کے طلباء اکثر تعلیمی اور تفریحی سیر کی غرض سے جیل ولر پر آتے ہیں اور اور اس دل افزا مقام میں آکر ٹھہرتے ہیں۔ان میں بعض تو ڈونگوں اور ہاوس بوٹوں میں بھی قیام کرتے ہیں۔سارا دن جھیل کی سیر کرتے ہیں اور شام کو واپس چلے جاتے ہیں۔یاد رہے یہ جھیل ایشیاء میں صاف پانی کی سب سے بڑی جھیل ہے۔

Advertisement