صفائی پر ایک مضمون

0

صفائی نصف ایمان

قانون کوئی ہو، ضابطۂ اخلاق کوئی بھی ہو ، آسمانی مذاہب کے اخذ شدہ یا دانشورں و داناؤں کی ترتیب شدہ، صفائی کے بارے میں نظریات اور خیالات دنیا بھر میں یکساں ہیں۔اسلام نے تو اسے اس حد تک ہم کو سمجھایا ہے کہ اسے نصف ایمان کا درجہ دے دیا ہے۔ بچہ خواہ دنیا کے کسی گوشے میں ولادت پائے رنگ و نسل، مذہب، معاشرتی اور معاشی معیار و اقتدار سے قطع نظر پہلی تربیت اس کی صفائی کے بارے میں ہی ہوتی ہے یا یوں کہنا چاہیے کہ ہونی چاہیے۔

صفائی کا وسیع تر مفہوم

صفائی کا آخر مفہوم کیا ہے کہ اسے اتنی اہمیت دی جاتی ہے۔اگر اچانک کسی سے سوال کیا جائے تو شاید اس کے لیے واضح جواب دینا فوری طور پر ناممکن ہو، باوجود اس کے کہ اسے اس کے اکثر ممکنہ پہلوؤں کا علم ہو۔ آئیے! دیکھتے ہیں کہ یہ آفاقی طور پر تسلیم شدہ امر آخری ہے کیا چیز۔

صفائی وسیع ترمعنی میں باطنی، ظاہری، اردگرد اور ماحولیاتی صفائی کا مرکب ہے۔تن کی صفائی یعنی اپنی ذات کی اندرونی اور بیرونی صفائی اس کی پہلی اور سب سے اہم سٹیج ہے۔جب انسان کے اقدار درست اور متوازن نہیں ہوتی وہ ممکن ہے ایک حد کے اندر اندر تو صاف نظر آتا ہو لیکن در حقیقت پاک صاف نہیں ہے۔ اکثر و بیشتر دیکھنے میں آتا ہے کہ نہایت عمدہ لباس پہنے ہوئے قیمتی، گاڑی میں سوار لوگ پھولوں کے چھلکے، کاغذ، سگریٹ یہاں تک کہ پان کی پیک تک گاڑی سے باہر سڑک پر اور راہگیروں پر پھینکتے ہوئے گزرتے ہیں۔اس لئے بنیادی طور پر باطنی صفائی یا صحیح اقتدار کی پہچان اور ان پر عمل ہی صفائی کی اولین اور سب سے اہم منزل ہے۔

ان اقتدار کے بغیر اگر انسان اپنے آپ کو صاف رکھتا ہے تو ایک حد تک جاذب نظر لگنے کی خاطر، لیکن زیادہ تر اس لیے بھی کہ اس کی وجہ سے اس کے ملنے جلنے والوں کی جمالیاتی حس نہ ہو اور وہ اس کے بارے میں غلط تاثرات نہ لیں۔گھر کی صفائی کے بارے میں بھی کم و بیش یہی اموار کارفرما ہوتے ہیں کہ گندا گھر صحت کا دشمن ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ غلیظ گھر کو دیکھ کر لوگ کیا کہیں گے۔ملنے جلنے والے اور عزیزواقارب افراد خانہ کے بارے میں اور خصوصاً خاتون خانہ کے بارے میں کیا رائے قائم کریں گے۔ان مفروضات میں پوشیدہ نقطہ یہ ہے کہ سوسائٹی کی رائے یا دڑ کی وجہ سے صفائی اختیار کرنے والے درحقیقت صفائی پسند نہیں ہوتے اور اردگرد کے ماحول کو گندا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔

صفائی کی روح کو پہچانا جائے

ضرورت اس امر کی ہے کہ صفائی کی روح پہچان کر صفائی اختیار کی جائے۔یہ پہچان اور اس کی تعلیم ماں کی آغوش سے شروع ہوجاتی ہے۔اگر بچے کو تعلیم دی جائے تو گندگی اختیار کرنا یا پھیلانا کس حد تک نقصان دہ امور ہیں، تو اس کا لاشعور اور شعور دونوں ہی یہ حقیقت تسلیم کرلیں گے۔بچپن کی سیکھی ہوئی بات ہمیشہ یاد رہتی ہے۔من کی صفائی سے اگلا مرحلہ تن کی صفائی ہے۔بعدازاں گھر،کوچوں،محلوں،شہروں اور پھر پورے ملک کی صفائی کی باری آتی ہے۔اس طرح یکے بعد دیگر سارے مراحل آسانی اور تسلسل سے طے ہوتے چلے جاتے ہیں۔

مسلمانوں کو تو صفائی کی اہمیت جاننے اور پہچاننے میں کسی قسم کی دشواری نہیں ہونی چاہیے۔ہمارے لیے تو صفائی نصف ایمان ہے بلکہ دین کی ابتداء ہی صفائی سے ہوتی ہے۔من اور تن اگر صاف نہ ہو تو نماز نہیں ہو سکتی۔نماز اسلام کا پہلا اور سب سے اہم رکن ہے۔آخرت میں نماز کے بارے میں اولین پرسش ہوگی۔قرآن کریم، سنت نبوی صلی اللہ علی وسلم اور احادیث میں اتنی بار صفائی کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے کہ نا ممکن ہے کہ کوئی مسلمان اس کے ظاہری اور باطنی اوصاف سے بے خبر رہ سکے۔جہان صفائی ہوگئی وہاں بیماری پیدا نہیں ہو سکتی اور نہ ہی پروان چڑھ سکتی ہے۔ اچھا ذہن صرف صاف جسم کے اندر ہی رہ سکتا ہے۔ظاہری گندگی، اندرونی گندگی کا باعث بنتی ہے یا اندرونی گندگی، بیرونی گندگی کا سبب بنتی ہے۔اس لیے من اورتن دونوں کی صفائی اصل ایمان ہے۔

وضو کی اہمیت

نماز سے پہلے وضو کرنا لازمی ہے۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو وضو کرنے کا طریقہ سکھایا۔انہوں نے فرمایا “جو پانچ وقت نماز ادا کرتا ہے یعنی صحیح طریقے سے وضو کر کے نماز پڑھتا ہے وہ اس طرح پاک صاف ہو جاتا ہے جیسے کسی شخص کے گھر کے سامنے نہر یا دریا گذرتا ہو اور وہ دن میں 5 مرتبہ اس میں غسل کرے”۔اسی طرح کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کو اسلام نے ضروری قرار دیا ہے۔جدید تحقیق کی رو سے آج کے سائنس دان اور دانشور یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ جو شخص دن میں 5 مرتبہ وضو کرتا ہے وہ بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے کیونکہ جراثیم ہاتھ، پاؤں اور منہ کے راستے ہی جسم میں داخل ہوتے ہیں۔جمعہ کی نماز کی تیاری میں نہانا، دھونا، مسواک کرنا اور خوشبو لگانا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔

غیروں کی مثال

افسوس کا مقام ہے کہ صفائی میں غیر لوگ ہم سے آگے ہیں۔کوریا کی مثال دیکھیے۔وہاں جب کوئی اپنی ملازمت سے ریٹائر ہو جاتا ہے تو وہ فارغ نہیں بیٹھتا۔وہ ایک چھوٹا سا چمٹا اور ایک ٹوکری لے کر صبح سے لے کر شام تک چھلکے، کاغذ کے ٹکڑے یا کسی قسم کی گندی اشیاء اٹھاتا پھرتا ہے۔وہاں کے لوگوں میں بھی اتنا شعور پایا جاتا ہے کہ وہ سگریٹ پینے کے بعد اس کا ٹکڑا ،ردی، کاغذ یا پھل کا چھلکا وغیرہ اِدھر اُدھر نہیں پھینکتے۔اگر کوڑا پھینکنے والی کوئی جگہ نظر نہ آئے تو وہ سگریٹ کا ٹکڑا وقتی طور پر اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔ اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی صفائی سے اپنے آس پاس کے ماحول کو صاف ستھرا رکھیں اور بیماریوں کو دور بھگائیں۔