مہنگائی پر ایک مضمون | Essay On Mehangai In Urdu

0

آج کے زمانے میں کوئی نہیں جو بڑھتی ہوئی مہنگائی سے پریشان نہ ہو۔ ویسے تو مہنگائی ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ دنیا کے سبھی ملکوں میں ضروریات زندگی کی چیزوں کی قیمتوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ بڑی حد تک یہ ایک فطری امر بھی ہے کیونکہ دنیا کی آبادی میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے اس رفتار سے چیزوں کی پیداوار میں نہیں ہوا۔ اور یہ بھی بات ہم سب ہی جانتے ہیں کہ جب کسی چیز کے خواہشمند یا طلبگار زیادہ ہو جائیں تو اس کی قیمت بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔

دنیا میں لوہے، کوئلے اور پٹرول وغیرہ کے ذخیرے بڑھتی ہوئی صنعتی ترقی کے پیشِ نظر جس تیزی سے استعمال میں آ رہے ہیں اتنی تیزی سے نئے ذخیروں اور وسائل کی دریافت نہیں ہوسکتی۔ غرض یہ چند عام حقائق ہیں جو دنیا کی بڑھتی ہوئی مہنگائی کو سمجھنے میں ہمیں مدد دیتے ہیں۔ لیکن ہندوستان میں مہنگائی کا مسئلہ دنیا بھر کے سبھی ملکوں سے زیادہ شدید اور تشویشناک ہے۔

ہندوستان بنیادی طور پر غریب اور پسماندہ ملک ہے جو آزادی ملنے کے بعد سے ترقی کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ لیکن ہماری ترقی کے تمام منصوبے ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات زندگی کی اشیاء کی کمی وغیرہ کی وجہ سے پوری طرح عمل میں نہیں آ پاتے۔ جس ملک کی بیشتر آبادی کو دو وقت پیٹ بھرنے کو اناج نہ مل سکے وہاں پر سماجی ترقی اور تہذیب و تمدن کی بہتری کی باتیں کرنا ایک کربناک مذاق ہی معلوم ہوتی ہیں۔

بہرحال ان مسائل کو دور کرنے کے لئے ملک کو بڑی بڑی قربانیاں دینی پڑیں اور جی توڑ کر کوشش کرنا پڑیں۔ اس سلسلے میں جو اقدامات اور کوششیں کی گئیں ان میں زرعی پیداوار، صنعتی ترقی اور بے روزگاری ختم کرنے کے منصوبے خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ ابتداء میں ان منصوبوں کی ترقی کی رفتار دیکھ کر یہ امید پیدا ہوچلی تھی کہ جلد ہی ملک خودکفالتی کے راستے پر پوری طرح گامزن ہوجائے گا اور غریبی اور بدحالی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ لیکن دوسری طرف ملک کی آبادی بھی غیر معمولی رفتار سے بڑھتی گئی اور ملک کی خوشحالی کے راستے میں ایک مہیب رکاوٹ بن کر سامنے آ کھڑی ہوئی۔ اور ستم بالائے ستم یہ کہ اسی دوران ملک کو کئی بدیشی طاقتوں سے جنگ کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔

ظاہر ہے کہ ان حالات میں مہنگائی کا بڑھنا قدرتی تھا۔ لیکن موجودہ مہنگائی کی صورتحال کو منافع خوری بلیک مارکیٹ اور رشوت نے اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ درمیانہ اور اوسط طبقے کے لوگ بھی پیٹ بھرنے اور تن ڈھانپنے کی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتے۔ غریبی میں کمی کی بجائے بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ آج ہندوستان میں بھوک، مفلسی اور بدحالی کا مسئلہ جتنا اہم ہوگیا ہے شاید پہلے کبھی نہیں تھا۔ ان حالات کے پیش نظر جمہوریت اور سوشلزم کے بلند بانگ دعوے اور ملکی رہنماؤں کے وعدے عوام کے لیے ایک سراب سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتے۔

بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غریبی اور بدحالی کو روکنے کے لئے حکومت اور عوام دونوں کو جدوجہد اور عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کے دستور میں عوام سے اس بات کا وعدہ کیا گیا ہے کہ حکومت ان کی زندگی کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کی ذمہ دار ہے۔ ویسے بھی عوامی حکومت یا جمہوریت اسی وقت اپنے نام کی اہل قرار دی جا سکتی ہے جب وہ اپنی عوام کو زندگی کی لازمی ضروریات کو پورا کرنے کا حق دے سکتے ہیں۔

مہنگائی روکنے کے لئے حکومت کو اپنے تمام وسائل اور قوت سے کام لینا چاہیے اور بلیک کرنے والوں، رشوت خوروں اور بے ایمانی کرنے والوں کو عبرت ناک سزائیں دینی چاہیے۔کیونکہ اگر جلد ہی موثر اقدامات نہیں کیے گئے تو یہ مسئلہ اتنا بڑھ جائے گا کہ اس پر قابو پانا ناممکن ہوجائے گا۔ مہنگائی کی وجہ سے ایک طرف تو حکومت کے بہت سے ترقیاتی منصوبے عمل میں نہیں آ پاتے اور دوسرے ملک میں بے اطمینانی اور جگہ جگہ حکومت کے خلاف جذبات پیدا ہوتے ہیں جو تخریبی کارروائیوں اور توڑ پھوڑ کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں اور ان تخریبی کارروائیوں سے ملک کے امن و اطمینان میں خلل پیدا ہوتا ہے اور ترقی کے منصوبے سست اور بے عمل ہو جاتے۔

اسی مسئلے کے نتیجے میں سرکاری ملازمین تنخواہوں میں اضافہ کی مانگ کرتے ہیں اور ہڑتال کرتے ہیں۔ ریلوے، ڈاک اور ایسے ہی اہم شعبوں کی ہڑتالوں سے ہر سال ملک کے کروڑوں روپے کا خسارہ ہوتا ہے اور تنخواہوں میں اضافہ کرنے سے ملکی بجٹ پر کافی بوجھ پڑ جاتا ہے اور مہنگائی بڑھتی رہتی ہے۔

حکومت ابھی تک موثر اقدامات کرنے سے قاصر رہی ہے۔ لیکن اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عوام نے حکومت کو اس سلسلے میں مناسب تعاون نہیں دیا۔ ظاہر ہے کہ قانون اور حکومت ہی منافع خوروں کو سزا دے سکتی ہے لیکن کیا یہ عوام کا فرض نہیں کہ وہ ایسے لوگوں کو قانون کی نظر میں لائیں۔ پرامن طریقوں سے ذخیرہ اندوزوں وغیرہ کو بے نقاب کریں۔ اور ان کا سماجی بائیکاٹ کریں۔ اگر عوام اور حکومت دونوں اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح اور خلوص اور لگن سے انجام دینے کی کوشش کریں تو وہ دن دور نہیں جب ایک بار پھر ملک میں خوشحالی کا سورج چمکے گا۔