حب وطن پر ایک مضمون | Hub e Watan Essay In Urdu

0

لفظ وطن جس قدر پیارا ہے اس کا مفہوم بھی اسی قدر وسیع ہے۔ایک پرندے کے لئے اس کا آشیانہ وطن ہے، ایک پھول کے لئے اس کی ٹہنی وطن ہے، ایک بچہ اپنے گھر کو ہی وطن سمجھتا ہے۔ایک انسان پر کیا موقوف، ہر جاندار اپنے مقدس وطن پر جان چھڑکتا ہے۔پرندہ اپنے آشیانے سے بچھڑ جائے تو بے حال ہو کر چلانے لگتا ہے۔بچہ اپنے گھر کو دیکھ نہ پائے تو سسک سسک کر جان کھونے لگتا ہے۔کسی کتے کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر سو سوں دوڑ چھوڑ دو وہ تمہارے پہنچنے سے پہلے ہی گھر میں موجود ہوگا۔مرغی کو اپنے ڈربے سے اتنی ہی الفت ہوتی ہے جس قدر کسان کو اپنے کھیتوں سے ہوتی ہے۔اسی طرح دردمند جوانمردوں کی نظر میں خاک وطن کا ایک ایک ذرہ دیوتاؤں کی سی عظمت رکھتا ہے۔

وطن کا کانٹا پردیس کے پھول سے زیادہ پیارا ہوتا ہے۔وطن کی یاد انسان کے دل میں ایسی نقش ہوتی ہے کہ ساری عمر محو نہیں ہوتی اور رہ رہ کر ستاتی ہے۔جس گھر میں بچہ پلتا ہے اس کا چپہ چپہ اسکے ذہن میں قائم رہتا ہے۔اس کے دروازے، اس کی کھڑکیاں، اس کی چھتیں، اسکا دالان، اس کی سیڑھیاں اور اس کا طول وغرض اور محل وقوع کا نقشہ ہمیشہ کیلئے دماغ میں جم جاتا ہے۔جن گلی کوچوں میں بچہ کھیلتا ہے انکی یاد کبھی بھی ذہن سے نہیں اترتی۔بچپن کی یادیں سب یادوں سے زیادہ دیرپا اور حسرت ناک ہوتی ہے۔بچپن کے دوستوں کے ساتھ بھائی بہنوں کی محبت سے بھی زیادہ الفت ہوتی ہے۔

وطن کی محبت انسانی زندگی کا اعلی ترین مقصد ہونا چاہیے۔وطن سے محبت رکھنے والے کسی انعام کی خواہش نہیں رکھتے۔وہ اپنے وطن کی بہبودی کے لئے ذاتی اغراض اور فائدوں کو بے دریغ قربان کر دیتے ہیں۔وطن کی محبت وہ حلال نشہ ہے جس سے ہر چھوٹا بڑا سرشار ہوکر جان پر کھیل جاتا ہے۔یہ پاکیزہ جذبہ قدرت کی طرف سے عطا ہوتا ہے۔دین ایمان اور دھرم بھی حب وطن کی تعلیم دیتے ہیں جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے؀

حب الوطن من الايمان
یعنی وطن کی محبت ایمان کا جز ہے۔گویا حب وطن سے محروم انسان کے ایمان میں فتور ہے۔علامہ اقبال مرحوم فرماتے ہیں۔؀

غربت میں ہوں اگر ہم رہتا ہے دل وطن میں
سمجھو ہمیں وہیں ہی دل ہو جہاں ہمارا

ہندوستان جنت نشان ہم سب ہندو، مسلمان بھائیوں کا عزیز وطن ہے۔ہم سب کو اسی نے جنم دیا ہے، اسی نے ہمیں اپنی گود میں پالا ہے،لوریاں دی ہیں، جھولے جلائے ہیں۔قسم قسم کی نعمتیں عطا کی ہیں۔ہندوستان کا ہر ایک واسی اسے اپنی ماں سمجھتا ہے۔آزادی سے پہلے مادر وطن کا ہر لاڈلا یہی ترانہ الاپتہ تھا؀

جس باغ کے کانٹوں میں پھولوں کی لطافت ہے
جس دیش کی دھرتی پر فردوس کو حیرت ہے
جس ہند پر مر مٹنا ہم سب کی عبادت ہے
وہ ہند ہو غیروں کا اللہ رے قیامت ہے
غیروں کی غلامی سے اب اس کو چھڑائیں گے
اے پیارے وطن تجھ کو آزاد کرائیں گے

تاریخ عالم محبان وطن کے کارناموں اور قربانیوں سے لبریز ہے۔روم کے بہادر اور جنرل ہوریشس نے اپنے محبوب وطن کی خاطر سر دھڑ کی بازی لگا دی۔ رستم اور اسفندیار اپنے وطن کی راہ پر ہتھیلی پر سر رکھ کر نکلے۔نپولین، ہٹلر اور مسولینی اپنے اپنے دیش کا صدقہ میدان میں کھیت رہے۔کپٹن ہاکنس، سرطامس رو اور ڈاکٹر باٹن نے مغلیہ دربار سے اپنے مفاد کی پرواہ نہ کرتے ہوئے برطانیہ کے لیے مراعات حاصل کیں۔جاپان کے بہادر سپاہیوں نے اپنے ملک کے واسطے ہنس ہنس کر موت کے منہ میں چھلانگیں لگائیں۔مہارانا پرتاب نے اپنے شاہانہ جاہ و جلال کو ٹھوکر لگا کر ساری عمر مصیبتیں جھیلیں لیکن پیارے وطن کو آنچ نہ آنے دی۔شیواجی نے مہاراشٹر کی آزادی بحال کرنے کو کیا کیا آفتیں برداشت کیں۔لوکمانیہ، گوکھلے اور لالہ لاجپت راۓ اور پنڈت نہرو نے اسی جذبۂ حب الوطن پر پھول چڑھاتے ہوئے اپنی زندگی وقف کردی۔مولانامحمدعلی، حکیم اجمل خان اور مولانا آزاد کی قربانیوں سے کون واقف نہیں۔

مہاتما گاندھی نے ہندو مسلم اتحاد کی ویدی پر جان قربان کردی۔سبھاش چندر بوش نے وطن کی آزادی کے لیے اپنے آپ کو جلا وطن کیا اور غربت میں ہی جان دے دی۔سردار بھگت سنگھ پیارے وطن کو آزاد کرنے کے لیے تختہ دار پر چڑھے اور ہنستے ہنستے جان قربان کردی۔

انسان کو وطن کی ہر چیز سے طبعی انس ہوتا ہے۔پردیس میں خواہ کتنے ہی دلفریب نظارے ہوں، خواہ کیسی ہی راحت میسر ہو۔لیکن وہ وطن کو کبھی نہیں بھول سکتا۔شام اودھ اور صبح بنارس کی کیفیت سامنے آتی ہے تو حسرت بھری یاد ستاتی ہے۔روضہ تاج محل اور وادی گلمرگ کے حسین نظاروں کے خیال سے آنکھوں میں دنیا اندھیر ہو جاتی ہے۔

ڈال کر باہیں گلے میں رہ گیا کوئی غریب
عید کے دن جس کو غربت میں وطن یاد آ گیا
قربان جو نہ ہو قوم پہ زندگی نہیں
جس کو وطن عزیز نہیں آدمی نہیں