لال قلعہ پر ایک مضمون

0

لال قلعہ ایک تاریخی پس منظر رکھتا ہے۔ یہ ہندوستان کے شہر و دارلخلافہ دہلی میں وقوع پذیر ہے۔ یہ قلعہ مغل بادشاہوں کی مستقل سکونت کے طور استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ لال قلعہ ہر سال یومِ آزادی ہندوستان کے موقع پر ہر ایک کی نظروں کا مرکز بنتا ہے۔ ہر سال ہندوستان کے یومِ آزادی پر یہاں وزیراعظم ہندوستان اپنے ملک کا ترنگا (پرچم) لہراتا ہے اور ایک تقریر کرتا ہے جو عالمی و قومی سطح پر نشر ہوتی ہے۔

انگریزی زبان میں اسے ریڈ فارٹ کہا جاتا ہے۔ جس کی وجہ اس کی سرخ دیواریں اور سرخ رنگا رنگ رنگت ہے۔ شاہی خاندان کی رہائش گاہ کے طور پر یہ قلعہ اصل میں (مبارک قلعہ) کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔

لال قلعہ کی تاریخ

پانچویں مغل بادشاہ (شاہ جہاں) نے لال قلعہ کو دارالحکومت شاہجہان آباد کے ایک محل کے طور پر ۱٦۳۹ میں تعمیر کروایا تھا۔ لال قلعے کو اس کا نام بڑے پیمانے کی پتھروں والی دیواروں کے ہونے کے باعث رکھا گیا۔ محل کی بنت و ساخت اور نقشہ ہندوستانی ،تموری اور فارسی نقوش کا مظہر ہے۔ یہاں کے خوبصورت باغ یکتائی میں اپنی مثال آپ ہیں جو ہر خاص و عام پر اپنا اثر چھوڑ دیتے تھے۔

نادر شاہ کے مغل سلطنت پر ۱۷۴۷ء میں حملے کے دوران اسی قلعے کو مضبوط دفاعی قلعے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ بعد میں ۱۸۵۷ء کی بغاوت کے بعد یہاں کی سنگ مرمر کی بیش قیمتی عمارتیں تباہ کر دیں گئی تھیں۔ اس کی حفاظتی دیوار ان کی تباہ کاریوں سے بچ گئی تھی۔ بعد میں اسے محل کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔

لال قلعہ کی اہمیت


لال قلعہ ہندوستان میں سیاحوں کی دلچسپی کے لئے مشہور مقام ہے۔ ہر سال اندورنی و بیرونی ممالک سے لوگ سیر و تفریح کے لئے یہاں کا رُخ کرتے ہیں۔ یہاں کے پانی کی وسیع خصوصیات اور جھرنوں کی خوبصورتی کا ثانی شاید ہی دنیا میں کہیں ہو۔ یہاں کے ماربل دنیا میں آج بھی بیش قیمتی جانے جاتے ہیں۔

مسجد و حمام جو کہ شاہی خاندان کے لئے مختص تھا وہ عوام الناس کے لئے بند کر دیئے گئے ہیں۔ وقت زیادہ گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا واک وے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے۔

لاہوری گیٹ کے داخلی دروازے سے زیورات اور دستکار کا سامان ایک سٹور روم بنا کر محفوظ کر رکھا ہے۔ ایک جانب کو میوزیم بھی بنا رکھا ہے جہاں بہت سے شہداء کی داستانیں آج بھی تاریخ دانوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔

لال قلعہ ہندوستانی پانچ سو کے نوٹ میں گاندھی جی کے عقب میں چھپوایا جاتا ہے۔ قلعے کا مرکزی دراز قد دروازہ لاہوری گیٹ ہے جس کو شہر لاہور کی نسبت سے یہ نام دیا گیا۔

اسی قلعے کا دوسرا دروازہ تقریباً لاہوری گیٹ جیسا ہی ہے جس کا نام دہلی گیٹ ہے جو عوام الناس کی آمدکے لئے استعمال ہوتا ہے۔ چھوٹے باغات (جیسے مہتاب باغ یا مون لائٹ گارڈن) اس کے مغرب میں موجود تھے ، لیکن جب برٹش بیرکوں کی تعمیر کی گئی تو اسے تباہ کردیا گیا۔ اس سے آگے شمال کی سڑک محراب پُل اور سلیم گڑھ قلعہ کی طرف جاتی ہے۔

حیات بخش باغ اور شاہی برج کا شمال شاہی شہزادوں کا چوتھائی حصہ ہے۔ یہ مغل شاہی خاندان کے رُکن نے استعمال کیا تھا اور بغاوت کے بعد برطانوی افواج نے اسے بڑے پیمانے پر تباہ کردیا تھا۔ یہاں کا ایک محل فوجیوں کے چائے خانوں میں تبدیل ہوگیا تھا۔

مجموعی طور پر لال قلعہ آج بھی بہت دلکش و شاداب منظر پیش کرتا ہے لوگ دنیا بھر سے اسے دیکھنے اور اس کی تاریخ کو پڑھنے آتے ہیں۔