علم کی اہمیت

0

اقراء

علم کے لغوی معنی ہیں جاننا اور آگاہ ہونا- علم ایک ایسا نور ہے جس سے جہالت کے اندھیرے دور ہوجاتے ہیں اور آگاہی اور شعور کے اجالے ہو جاتے ہیں-جس طرح چمن کی زیب وزینت کا انحصار پھول پر ہوتا ہے-اسی طرح معاشرے اور وطن کی سج دھج اور خوبصورتی کا دارومدار علم پر ہوتا ہے۔قرآن پاک کی سورہ رحمن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے- “نہایت مہربان (خدا تعالی)ٰ نے اس قرآن کی تعلیم دی ہے- اسی نے انسان کو پیدا کیا٬ اسے بولنا سکھایا”۔

ہمارے پیارے نبی اکرمﷺ پر خدا تعالیٰ کی طرف سے جو پہلے الفاظ نازل ہوئے ان میں سب سے پہلا لفظ “اقراء” تھا یعنی پڑھ-یہی علم کی خشت اول تھی٬ جس پر انسانی فلاح و فوز اور تعلیم و تربیت کی عمارت کھڑی کی گئی اور یہی نوراولین کی وہ کرن تھی جس کے ذریعے انسان کے قلوب اور اذہان روشن ہوگئے-خدا نے اپنے پیارے محبوب حضرت محمّد ﷺ سے مخاطب ہوکر فرمایا:” اور دعا کرو کہ اے پروردگار مجھے مزید علم عطا کر”-
اقوال زریں

1. حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: “ہم اپنے درمیان خدائے جبار کی اس تقسیم پر راضی ہیں کہ اس پاک ذات نے ہمیں علم سے نوازا اور جاہلوں کو مال و زر دیا”-

2. امامغزالی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :” ہر بستی میں ایک عالم ہونا چاہئے تاکہ اسلامی علوم حاصل کرنے کے لیے لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں”۔

 3. حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:” اگر علم والے نہ ہوتے تو لوگ جانوروں کی مانند ہو جاتے” گویا عالم شخص کو مکارم اخلاق کا اعلی نمونہ ہونا چاہیے تاکہ دوسرے اس کے کردار کو دیکھ کر اپنے اخلاق و کردار کی تعمیر کرسکیں”۔

کردارسازی

علم حاصل کرنے سے طلباء کے کردار کی تعمیر تشکیل ہوتی ہے۔جب کوئی طالب علم اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتا ہے تو وہ کتابی علم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی حاصل کرتا ہے۔ اس کا علم عمل کی صورت اختیار کرتا جاتا ہے۔ یہی علم اس کے اندر اخلاقی قدریں پیدا کرتا ہے۔طلباء ادب آداب٬ طرزگفتگو٬ اٹھنا٬ بیٹھنا٬ میل ملاپ وغیرہ کے ذریعے سیکھتے ہیں۔ علم انسان کے اندر دیانتداری٬ ہمدردی٬ خیرخواہی٬ایثار،  عجز و انکسار اور عالی ظرفیت پیدا کرتا ہے۔

حصول رزق

جب کوئی طالب علم کسی کالج یا یونیورسٹی سے کوئی ڈگری وغیرہ لیتا ہے تو وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ کسی نہ کسی نوکری لیے اپلائی (Apply) کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ علم صرف کتابوں کی ورق گردانی کا نام نہیں بلکہ اس کی وجہ سے رزق کے ذرائع بھی میسر آجاتے ہیں۔ اسلام میں دوسروں سے مانگنے اور سوال کرنے کی بہت زیادہ مذمت کی گئی ہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے”کسی سے کچھ نہ مانگو” مزید حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:” اگر کوئی اشد مجبوری کے بغیر لوگوں سے کچھ حاصل کرے گا٬ وہ اس پر حرام ہوگا۔ اپنے ہاتھ سے روزی کمانے والا بھیک مانگنے والے شخص سے زیادہ قابل احترام اور عظیم ہے”۔ اگر کوئی شخص اپنی محنت اور ہمت سے کوئی علم حاصل کرتا ہے  تو وہ شخص اپنے رزق حلال کمانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔

علم شعور بخشتا ہے

اب ذرا انسان کے شب و روز پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ انسان کو جب بھوک محسوس ہوتی ہے تو کھانا کھا لیتا ہے٬ پیاس لگتی ہے تو وہ پانی پی لیتا ہے اسکی آنکھیں نیند سے بوجھل ہوتی ہیں تو وہ نرم نرم بستر پر دراز ہو جاتا ہے-اب ذرا سوچیں کہ یہ کام تو جانور بھی کرتے ہیں-کیا انسان کی زندگی کا مقصد صرف کھانا٬ پینا اور سونا ہے؟ علم ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو شعور اور آگاہی بخشتی ہے۔ جب انسان کے اندر شعور کی شمع روشن ہو جاتی ہے تو اسے خیروشر٬ نیکی و بدی اور برے اور بھلے کی تمیز آجاتی ہے-

جب انسان کو خیر و شر کا شعور حاصل ہو جاتا ہے تو اس کے لیے نیکی کے راستے پر چلنا آسان ہوجاتا ہے-اگر اس کی آنکھوں پر جہالت کی پٹی بندھی رہے اور  اس کا دل علم کے نور سے دور رہے تو پھر اسے زندگی کا کوئی مقصد سمجھ نہیں آئے گا اور جو مقصد سمجھ نہیں آئے گا تو وہ اپنے لئے کسی منزل کا انتخاب نہیں کرسکے گا۔ علم انسان کے اندر شائستگی پیدا کرتا ہے ٬تہذیب پیدا کرتا ہے اور حسن پیدا کرتا ہے-ایک جاہل شخص کا دل حسد عداوت اور لالچ کے تیروں کا جلد شکار ہوجاتا ہے جبکہ علم انسان کو حسد اور لالچ جیسی موذی بیماریوں سے بچاتا ہے- اسی وجہ سے ہمیں چاہئے کہ ہم علم حاصل کرکے اپنے سماج کی ترقی میں اپنا حصہ پیش کریں اور ساتھ ہی اپنی زندگی کو آرام دہ اور پرسکون طریقے سے گزاریں۔