تعلیم نسواں

0

اسلام میں خواتین کے لئے علم کی اہمیت

اسلام نے خواتین کے لئے تعلیم کو بہت ضروری قرار دیا ہے۔حضرت محمّد ﷺ کا ارشاد ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔بعض روایات سے ثابت ہے کہ آپﷺ کے پاس بچیاں آتیں اور آپ اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ وقت  ان کے پڑھانے میں صرف کرتے۔ہمارے دین کا آغاز بھی علم سے ہوا۔ غار حرا میں نبی پاک ﷺ پر قرآنی آیات کے ذریعے علم ہی عطا ہوا۔حضور اکرمﷺ کے دور میں بعض خواتین، خواتین افسران سے اپنے دینی مسائل کے بارے میں استفسار کرتی تھیں۔آپﷺ کی ازواجِ مطہرات بھی خواتین کو قرآن و حدیث کا علم سکھاتی تھیں ۔آپﷺ  نے خواتین کی تعلیم کے بارے میں فرمایا:

“جس شخص نے ایک یا ایک سے زیادہ بیٹیوں کو تعلیم دی اور اچھے طریقے سے ان کی پرورش کی تو وہ جہنم کی آگ سے دور رہے گا”۔

ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ

ماں کی گود میں بچہ اگرچہ بہت چھوٹا اور معصوم ہوتا ہے لیکن اس کی شخصیت اس گود کے سانچے میں ڈھالنا شروع ہوجاتی ہے۔یہ ہرگز خیال نہ کریں کہ بچہ کم فہم ہے اور کچھ نہیں سمجھتا بلکہ بچہ والدین کے اشارے سمجھتا ہے۔اس سے چھوٹی چھوٹی باتیں کرتا ہے۔اپنا مطلب سمجھاتا ہے اور اسکا مطلب سمجھتا ہے۔اگر والدہ تعلیم یافتہ ہو گئی تو وہ اس کی معصوم اور نئی منزل پر اپنے خیالات نقش کرے گی۔اپنے بچوں کو نیک و بد سمجھائے گی اور وہ انھیں اچھا انسان بنانے کی کوشش کرے گی۔کسی کا قول ہے کہ ایک شخص کو تعلیم دینا صرف اسی کو تعلیم دینا ہے جبکہ ایک عورت کو تعلیم دینے کا مطلب پورے خاندان کو تعلیم دینا ہے۔اسی طرح نپولین نے بھی کہا تھا “آپ مجھے اچھی مائیں دے دو میں تمہیں  اچھی قوم دوں گا”۔

اسلام سے قبل عرب کے لوگوں میں جہالت اور بہت سی برائیاں تھیں وہاں ایک برائی یہ بھی تھی کہ لوگ اپنی بیٹیوں کو زمین میں زندہ گاڑھ دیا کرتے تھے۔جب خدا نے نبی اکرمﷺ کی ذات اقدس کو مبعوث فرمایا تو جہالت دم توڑ گئی۔ انسانیت کے مایوس چہرے خوشی سے کھل اٹھے۔آپﷺ نے بچیوں کو ان کا حق دلایا انہیں پڑھانے لکھانے اور ان کی اچھی پرورش پر زور دیا۔

والدہ کا پڑھا لکھا ہونا بہت ضروری ہے

یہ سب کہتے ہیں کہ بچہ گھر کے ماحول سے بہت کچھ سیکھتا ہے اس کے لیے والد اور والدہ کا تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے۔آپ ذرا غور فرمائیے کے والد کو ملازمت یا کاروبار کے سلسلے میں گھر سے باہر رہنا پڑتا ہے۔گھر میں سارا دن بچوں کا سابقہ والدہ سے رہتا ہے۔اب اگر والدہ علم کے زیور سے آراستہ ہو تو بچے اپنی والدہ سے علم کے موتی ضرور حاصل کریں گے۔اگر بچے  والدہ سے پڑھائی میں مدد نہ بھی لیں پھر بھی والدہ سے علم کی خوشبو آتی ہی رہے گی۔بچہ پہلے دن روٹی کا لقمہ بائیں ہاتھ میں پکڑتا ہے تو والدہ اسے فوراً سمجھاتی ہے کہ بیٹا لقمہ دائیں ہاتھ سے پکڑو۔ تعلیم یافتہ مائیں اپنے بچوں کو پاکیزہ ماحول دیتی ہیں۔انہیں علم ہوتا ہے کہ آج تکلیف اٹھا کر بچوں کی تربیت کی گئی تو کل یہی ننھے منے پودے شجر بنیں گے اور ان درختوں کے سائے اور صبر سے پورا معاشرہ اور پورا ملک مستفید ہوگا۔

بچہ جب اپنے پاؤں پر چلنا شروع ہو جائے تو والدہ اپنے بچے پر مزید توجہ دینا شروع کر دیتی ہے۔پڑھی لکھی والدہ جانتی ہے کہ بچہ اپنے ماحول سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔اسے پتا ہے کہ گلی میں ایسے بچے بھی کھیلتے ہیں جو ماؤں کی توجہ کے مستحق ہیں لیکن مائیں ان پڑھ ہونے کی وجہ سے ان بچوں کو گلی میں کھیلنے کودنے اور گالی گلوچ کرنے سے نہیں روکتیں۔تعلیم یافتہ ماں اپنے بچوں کو ایسے ماحول سے دور رکھتی ہیں۔بچوں کا دل ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیلیں لیکن ماں کا علم بچوں کو ایسے گندے ماحول سے بچالیتا ہے۔

سائنس اور کمپیوٹر کے دور میں خواتین کے لئے تعلیم حاصل کرنا اس لیے بھی ناگزیر ہے کہ یورپی کلچر کا زہر معصوم بچوں کے اذہان کو مسموم کررہا ہے۔اگر والدہ ان پڑھ ہے تو اسے کیا خبر کہ اس کا بچہ اس کی آنکھوں کے سامنے ہی سحر پھانک رہا ہے۔آج تفریح کے نام پر جو فلمیں دکھائی جاتی ہیں ان سے بچوں کو دور رکھنا پڑھی لکھی والدہ کا کام ہے۔بعض اوقات بچے دوسرے بچوں کی دیکھا دیکھی سے کتابیں گھر لے آتے ہیں جن کے متعلق بچے والدین کو جھوٹ کہنا شروع کر دیتے ہیں۔

اگر والدہ تعلیم یافتہ ہو تو اسے علم ہو سکے گا کہ ان کا بچہ اچھی کتابیں پڑھتا ہے یا بری۔والدہ کتابوں کے انتخاب میں اگر بچے کی رہنمائی کرے گی تو وہ اچھی کتابوں کی طرف راغب ہو گا۔اچھی کتاب اچھے دوست کی مانند ہوتی ہے جس طرح اچھا دوست اچھائی کی طرف مائل کرتا ہے اسی طرح اچھی کتاب بھی اچھائیوں کے راستے پر گامزن کر دیتی ہے۔ تعلیم یافتہ والدہ بچے کو کوئی کہانی یا واقعہ سناتی ہے تو اس کا مقصد صرف وقت گزارنا نہیں بلکہ اس کی نگاہیں بچے کی ذہنی تربیت پر مرکوز ہوتی ہیں۔

درس و تدریس

درس وتدریس ایک ایسا پیشہ ہے جو خواتین کے مزاج کے مطابق ہے۔یہ ایک ایسا پیشہ ہے کہ خواتین پردے میں رہتے ہوئے اور مردوں سے الگ تھلگ ملک و قوم کی بچیوں کو تعلیم دے سکتی ہیں۔اس کیلئے بنیادی شرط خواتین کا خود تعلیم یافتہ ہونا ہے۔

ڈاکٹری کی تعلیم

عورت کو خدا نے صنفِ نازک بنایا ہے۔اسے ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کا روپ دے کر باپ، بیٹا ،بھائی اور خاوند کے لیے محبت، خلوص اور دکھ کا سہارا بنا دیا ہے۔ہمدردی، شفقت اور نرمی عورت کی فطرت کا حصہ ہیں۔ اس لیے اگر عورت ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرے تو مسیحائی میں مرد اس کا ہمسر نہیں ہو سکتا۔اسلام پردے پر زور دیتا ہے اس لیے خواتین ہی خواتین کا علاج معالجہ کر سکتی ہیں۔

گھریلو ذمہ داریاں

عورت گھریلو زندگی کو جنت بھی بنا سکتی ہے اور جہنم بھی۔اگر خاتون خانہ علم سے بےبہرہ ہو تو وہ کھانا، پکانا، سینا، پرونا اور دیگر امور سلیقے سے سرانجام نہیں دے سکے گی جبکہ ایک پڑھی لکھی عورت سلیقہ شعاری اور ہنرمندی سے گھریلو ذمہ داریاں نبھا سکتی ہے۔اگر عورت علم حساب اور علم معاشیات کو بالکل نہ سمجھے تو اس کے گھر کا بجٹ تباہ و برباد ہو کر رہ جائے گا۔اگر کمائی 19 ہو گئی تو وہ 20 خرچ کرے گی۔اس طرح اس کا گھریلو نظام اس کی جہالت کی وجہ سے بگڑ جائے گا۔

بحیثیت مجموعی عورتوں کا تعلیم یافتہ ہونا موجودہ دور میں بہت ضروری ہے۔ ایک تعلیم یافتہ عورت اچھے اور برے میں فرق کرنا جانتی ہے۔اسلیے یہ والدین کی ذمہداری ہے کہ اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ اپنی بچیوں کو بھی تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں تاکہ ہمارا آنے والا معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔