شجرکاری پر ایک مضمون

0

درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے۔ روئے زمین پر جا بجا پھیلے پیڑ بنی نوع انسان کے لئے قدرت کا انمول تحفہ ہیں۔ درخت نہ صرف سایہ فراہم کرتے ہیں بلکہ یہ ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ درخت سیلابوں کی تباہ کاریوں سے بچاؤ اور زمین کے کٹاؤ کو روکنے کا اہم ذریعہ ہیں۔

ماہرین کے مطابق کسی بھی ملک کے کل رقبے کا 25 فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے۔ درخت جہاں ماحول کو خوشگوار بناتےہیں وہی انسانوں کے لئے بھی فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں انسان ان درختوں کے ذریعے مزے دار اور شریں پھل حاصل کرتا ہے اور گھروں کی سجاوٹ کے لیے درخت کی لکڑی سے فرنیچر اور دوسری چیزیں تیار کرتا ہے۔

درخت اللہ تعالی کی وہ نعمت ہے جو موسمیاتی تبدیلی کا باعث بنتے ہیں۔ درختوں کی بدولت بارش کا موجب بننے والے بادل وجود میں آتے ہیں۔ ہمارا ملک پاکستان اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اللہ تعالی نے اسے چار موسموں کے انعام اور نعمت سے نوازا ہے لیکن اس کے باوجود ہم اس سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھاتے کیوں کہ ہمارے ملک میں صرف چار فیصد حصے پر جنگلات موجود ہیں جو انتہائی کم اور قابل تشویش ہے۔

گلوبل وارمنگ میں اضافے کا ایک سبب درختوں کا کاٹنا بھی ہے۔ درختوں کے بے حساب کٹاؤ سے فضا میں آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ زیادہ ہو رہی ہے۔ درخت چونکہ کاربن ڈائی آکسائڈ بطور خوراک استعمال کرتے ہیں لہذا اگر درخت کا کٹاؤزیادہ رہا تو فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اضافہ انسانی صحت کے لیے خطرناک حد تک پہنچ جائے گا اور پاکستان میں گلوبل وارمنگ کا اثر بہت زیادہ ہو جائے گا۔ کیونکہ ہمارے ملک میں اس کے بچاؤ کے لیے کوئی قابل ذکر ٹیکنالوجی موجود نہیں۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ شجرکاری مہم کا باقاعدہ آغاز کرے اور عوام کے لیے شجر کاری سے متعلق ایک آگاہی پروگرام جاری کریں تاکہ ملک میں گلوبل وارمنگ کے اثرات کم ہو سکیں۔

شجرکاری کے لئے آج کل دنیا میں جدید طریقے آچکے ہیں جن میں ڈرون کے ذریعے شجرکاری کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ یہ ڈرون فضا سے زمین پر بیج پھینکے گے جس سے ایک وسیع رقبے پر بہت کم وقت میں شجر کاری کا عمل انجام دیا جاسکتا ہے۔سری لنکا نے بھی ہیلی کاپٹر کے ذریعے شجرکاری کا نہایت کامیاب تجربہ کیا۔ اسی ہیلی کاپٹر کے ذریعے جاپانی کسانوں کے ایجاد کردہ طریقہ کار کے مطابق جلی مٹی، کھاد اور مختلف بیجوں سے تیار کیے گئے گولے پھینکے گئے جس سے کچھ عرصہ بعد ہی پودے اگ آئے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہاتھ سے شجر کاری کے مقابلے میں یہ طریقہ دس گناہ زیادہ تیز ہے اور اس میں رقم بھی بے حد کم خرچ ہوتی ہے۔