قائداعظم پر ایک مضمون

0

پونجا جناح کا اصل وطن تو راجکوٹ تھا لیکن کاروباری شغف کراچی لےآیا۔چمڑی کی تجارت کرتے تھے اور متمول تاجروں میں شمار ہوتے تھے۔۲۵ دسمبر۱۸۷۶ کو ان کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام محمد علی رکھا گیا۔ یہی محمدعلی بڑا ہو کر اور پڑھ لکھ کر مسلم قوم کا سہارا اور پاکستان کا بانی ہوا۔ قوم نے بھی اسے سر پر اٹھایا اور قائد ‘اعظم، رحمت اللہ علیہ کے لقب سے پکارا۔

محمد علی جناح نے ابتدائی تعلیم کراچی میں حاصل کی۔بارہ سال کی عمر میں میٹرک پاس کرلیا اور بیرسٹری کی تعلیم کے لیے لندن روانہ ہوگئے جہاں سے 20 سال کی عمر میں بیرسٹر بن کر لوٹے۔

اتفاق کی بات یہ کہ ان دنوں باپ کا کاروبار تباہ ہوگیا اور وہ کئی مقدمات اور مشکلات میں پھنس گئے۔محمد علی نے ولایت سے واپسی پر سب سے پہلے باپ کے مصائب کو دور کیا۔پھر وکالت کے لئے بمبئی چلے گئے۔یہاں چھ ماہ تک پریزیڈینسی مجسٹریٹ کی آسامی پر فائز رہے۔پھر وکالت کی پریکٹس شروع کر دی اور جلد ہی چوٹی کے وکیلوں میں شمار ہونے لگے۔

اس وقت ہندوستان میں کانگریس کی دھوم تھی۔محمد علی بھی اس کے ممبر بن گئے اور ‘صلح کا شہزادہ’ کے لقب سے مشہور ہوئے۔وہ کئی سال تک کانگریس کے ممبر رہے مگر جب دیکھا کہ کانگریس کی جماعت صرف ہندوؤں کی بہتری کے لیے کوشاں ہے اور مسلمانوں کو اپنا غلام بنانے کی فکر میں ہے تو آپ نے کانگرس کو چھوڑ دیا اور ولایت چلے گئے۔

یہ زمانہ مسلمانوں کیلئے نہایت کٹھن تھا۔انگریز حکمران اور دشمن تھا۔ساری قوم دشمن تھی۔اگرچہ  ۱۹۰۶ء سے مسلم لیگ قائم تھی مگر درحقیقت بے جان سی جماعت تھی۔علامہ اقبال مسلمانوں کی بے بسی پر کڑھتے تھے۔رات دن اسی غم میں تڑپتے تھے۔آخر انہوں نے دیکھا کہ محمد علی جناح کے سوا کوئی ایسا مسلمان موجود نہیں جس پر بھروسہ کیا جاسکے اور قوم کی باگ دوڑ اس کے ہاتھ میں دے دی جائے۔چناچہ آپ نے خط لکھ لکھ کر انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ وطن واپس آئیں اور مسلم لیگ کی قیادت سنبھالیں۔چناچہ وہ واپس آئے اور انہوں نے مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی۔قوم کے بکھرے ہوئے شیرازے کو جمع کیا۔شہر شہر جا کر قوم کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگایا اور ایک پلیٹ فارم پر لاکھڑا کیا۔

گاندھی جی نے ان کے مقابلے میں کئی پینترے بدلے۔مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی لیکن مسلمانوں نے ان پر توجہ نہ دی۔ ادھر علامہ اقبال نے ۱۹۳۰ء میں مسلم لیگ کی سالانہ جلسے میں اپنی صدارتی تقریر میں فرمایا کہ مسلمان ایک قوم ہیں اور ان کے لئے علیحدہ وطن کی ضرورت ہے لہذا ہندوستان کے وہ علاقے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، انہیں ملا کر ایک اسلامی مملکت تشکیل دی جائے۔

اس تقریر پر ہندو بہت تلملائے۔مگر مسلمانوں کا ایک نصب العین بن گیا تھا۔محمد علی جناح نے اسے اور اچھالا۔ولایت کے ایک مسلمان طالب علم رحمت علی نے اس مجوزہ اسلامی ریاست کا نام ‘پاکستان’ رکھا جو ہر مسلمان کی زبان کا نعرہ بن گیا۔

انگریز اور گاندھی نے ہندوؤں سمیت اس کا نہایت شدت سے مقابلہ کیا لیکن محمد علی جناح نے نہایت خوبصورتی سے جواب دیا۔آخر انگریز اور ہندوؤں دونوں کو مسلمانوں کا مطالبہ ماننا پڑا اور ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو دنیا کے نقشے پر پاکستان کا وجود ثبت ہو گیا۔
اب تک محمد علی جناح کو مسلمانوں کی طرف سے “قائد اعظم” کا لقب مل چکا تھا۔ چناچہ جب پاکستان کی سلطنت قائم ہوئی تو آپ اس کے پہلے گورنر جنرل مقرر ہوئے۔لیکن آپکی عمر نے وفا نہ کی۔دن رات کی محنت سے آپ کی صحت خراب ہو گئی اور آخر ۱۱ ستمبر ۱۹۴۸ء کو یہ پاکستان کا بانی، نڈر اور بے باک جرنیل قوم کو روتا چھوڑ کر راہی ملک بقا ہوا۔

قائد اعظم زندہ باد           پاکستان پائندہ باد