An Essay On Taj Mahal in Urdu | تاج محل پر ایک مضمون

0

تاج محل کا شمار دنیا کے سات عجائبات میں ہوتا ہے۔ہندوستان کا بچہ بچہ اس کی شان سے واقف ہے۔ جو بھی سیاح باہر سے ہندوستان میں وارد ہوتا ہے سب سے پہلے اس عجوبۂ روزگار کی زیارت کرتا ہے اور اس کے حسن و کمال پر دھنگ رہ جاتا ہے۔اس کی شان اور عظمت کے ساتھ کئی سیاحوں کی داستانیں وابستہ ہیں۔

ایک سیاح نے اسے دیکھ کر کہا کہ”یہ عالم مرمر کا خواب (مرمریں خواب) ہے”کسی نے کہا کہ”اس نادر تحفے کو شیشے کے اندر رکھ دینے کی ضرورت ہے” ایک یورپی خاتون اس کی دلکشی پر اس قدر مسحور ہوئی کہ اپنے شوہر کو کہنے لگی”اگر میری قبر پر ایسی خوبصورت عمارت بنوا دو تو میں آج ہی مرنے کے لئے آمادہ ہوں”۔ان کلمات سے تاج محل کی مقبولیت ظاہر ہوتی ہے۔

یہ شہرہء آفاق روزہ مغل شہنشاہ شاہ جہان نے اپنی محبوب بیگم ممتاز محل کی یادگار میں تعمیر کروایا تھا۔موت سے پہلے ممتازمحل نے بادشاہ سے اس تمنا کا اظہار کیا کہ میری یاد میں ایسا عالیشان مقبرہ بنایا جائے جس کی نظیر دنیا میں نہ ملے۔چناچہ جب بیگم نے اس دارفانی سے رحلت کی تو بادشاہ نے تاج محل کی تعمیر کا کام شروع کروا دیا۔بڑے ہنرمند اور ماہر انجینئروں کو اس کام پر مامور کیا گیا۔سفید مر مر کے پتھر، سنگ سیاہ، سنگ سرخ اور بیش قیمت جواہرات فراہم کیے گئے۔اٹلی کے ایک ماہر فن نے تاج محل کا نقشہ تیار کیا۔22 ہزار کارگر اس مہم پر جھٹ گئے اور 22 سال تک اس کی تعمیر میں مصروف رہے۔آخر 5 کروڑ روپے کے کثیر مصارف کے بعد یہ عمارت پایہ تکمیل تک پہنچی۔

ایک درد ناک واقعہ تعمیر کے ساتھ وابستہ ہے۔ کہتے ہیں کہ جب فن تعمیر کا یہ شاہکار مکمل ہوگیا تو شاہجہان نے سب سے بڑے انجینئر استاد عیسیٰ کی آنکھیں نکلوادیں اور اس کے ہاتھ کٹوا دیے تاکہ وہ اس قسم کی دوسری عمارت نہ بنا سکے اور تاج محل ہمیشہ کے لئے دنیا میں اپنی مثال آپ رہے۔

تاج محل کا دلفریب نظارہ ناقابل بیان ہے۔چاندنی رات میں تو اس کی دلکشی اور بھی بڑھ جاتی ہے اسکو دیکھنے کے لئے دنیا کے گوشے گوشے سے سیاح آتے ہیں اور جب اس پر نگاہ ڈالتے ہیں تو عش عش کرنے لگتے ہیں۔اس کے حسن و کمال فن پر دنگ رہ جاتے ہیں۔ تاج محل میں داخل ہونے سے پہلے جون ہی اس کے خوبصورت اور شاندار دروازے پر نظر پڑتی ہے تو بے اختیار منہ سے تحسین و تعریف کے کلمات نکل جاتے ہیں۔یہ دروازہ بلحاظ حسن و عظمت بادشاہ اکبر کے مقبرے کے دروازے کو بھی مات کرتا ہے۔اس پر کلام پاک کی آیتیں کندہ ہیں۔اگر دروازے پر کھڑے ہو کر اندر کی طرف دیکھیں تو چبوترے کے دوسرے سرے پر تاج کا نہر کے پانی میں پڑتا ہوا عکس عجب منظر پیش کرتا ہے۔

نہر کے کنارے سرو و صنوبر کے درخت عمارت کی شان کو دوبالا کرتے ہیں۔پھولوں اور پودوں پر غضب کا نکھار ہے۔سنگ مرمر کے چبوترے پر خوشنما فوارا عجب سماں پیدا کرتا ہے۔اس کے آگے وہ وسطی حصہ ہے جہاں ممتاز محل اور شاہ جہاں مدفون ہیں۔دونوں قبریں سنگ مرمر کی بنی ہوئی ہیں ان پر قیمتی جواہر جڑے ہیں۔جس مقام پر سنگ موسیٰ کو پیوست کیا گیا ہے وہاں پتھروں کا پیوند مطلق دکھائی نہیں دیتا۔یہ کارگری کا کمال ہے اور داد کے قابل ہے۔

تاج محل میں دو بڑے گنبد ہیں۔ان کے علاوہ دو گنبد دوستی تالابوں کے دونوں طرف ہیں۔دیواروں، پردوں اور قبروں پر قرآن مجید کی آیات کندہ ہیں اور ان کو گونا گوں رنگوں کے قیمتی پتھروں کے بیل بوٹوں سے آراستہ کیا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسے اے ڈریم ان ماربل(A dream in marble) کہتے ہیں۔

روضۂ تاج محل مغل فن تعمیر کا بہترین نمونہ ہے اور دنیا بھر میں سب سے زیادہ حسین مقبرہ ہے۔یہ شاہجہان اور اس کی بیگم ممتاز محل کی عمیق محبت کی دائمی یادگار ہے اور اس نے بادشاہ شاہجہان کو زندہ جاوید کر دیا ہے۔

حکومتِ ہند اس روضۂ کی حفاظت اور سلامتی کا خاص خیال رکھتی ہے۔اگر کہیں معمولی سا نقص یا خلل پڑ جائے تو فوراً اسے رفع کر دیا جاتا ہے۔آثار قدیمہ کو بچانے کی غرض سے ہماری سرکار لاکھوں روپے صرف کرتی ہے اور ان کی دیکھ بھال کے لیے ایک خاص محکمہ قائم کر رکھا ہے۔

روضۂ تاج محل کا طرز تعمیر اکبر کی عمارتوں سے مختلف ہے۔ اکبر نے سنگ سرخ سے کام لیا جبکہ شاہجہان نے سنگ مرمر استعمال کیا۔اکبر کی تعمیرات کی خصوصیت عظمت اور قوت ہے تو تاج محل کی نمایاں خوبی حسن و نزاکت ہے۔اکبر کی عمارتوں سے جلال ٹپکتا ہے تو شاہ جہان کا تاج محل جمال کا مرقع ہے۔ایک رزمیہ ہے تو دوسرا رومان ہے۔ہندوستان کا مشہور عالم ہیرا کوہ نور اغیار اڑا کر لے گئے جو بالآخر برطانوی تاج کی زینت بنا۔اب فخر کرنے کو تاج محل کا وجود غنیمت ہے۔یہ ہیرہ زمانے کی دست برد سے محفوظ ہے اور ہماری بے بہا قومی میراث ہے۔