Defence Day Speech in Urdu

0

محترم صدر اور معزز حاضرین کرام!

۶ ستمبر ۱۹۶۵ء ہماری قومی تاریخ کا ایک ناقابل فراموش اور یادگار دن ہے جب دشمن اپنے ناپاک عزائم کے ساتھ عرض پاک پر حملہ آور ہوا۔مگر عزم و ہمت جرات اور طاقت کی چٹانوں سے ٹکرا کر بکھر گئے اور پاکستانی قوم کے وجود کو مٹانے کے لیے وارد ہوئے مگر ایثار و قربانی اور جزبہ جوش کی آگ میں جل کر مٹ گئے۔ایثار و قربانی کے ان واقعات نے ۶ستمبر کو جنم دیا۔ یے تاریخ ہماری قومی زندگی میں ایسے موڑ کی حیثیت رکھتی ہے جس نے پوری قوم کا چلن بدل دیا۔

جناب صدر! ۶ ستمبر ۱۹۶۵ء کی صبح ایک مضطرب صبح تھی ارض پاک کی ایک ہزار میل لمبی سرحد دھوئیں اور آگ میں لپٹی ہوئی تھی وطن کی سرحدوں میں خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی فضائیں چیخوں اور فریادوں سے گونج رہی تھی پھر دیکھتے ہی دیکھتے انسانوں کے قافلے شہروں کی طرف بھاگنے لگے مگر موت انکا پیچھا کر رہی تھی ایک دم حالات بدلے چیخوں کی صدائیں نعروں کے قالب میں ڈھل گئی۔

سرحدوں کے محافظ اسی زمین ماں کے بیٹے دشمنوں کی راہ میں دیوار بن کر ڈٹ گئے۔توپوں اور ٹینکوں کے منہ موڑ دیے دشمن کے قدم روک دیے وہ شعلے جو ہمارے لئے بھڑکائیں گئے تھے دشمن کو اس میں دھکیل کر راکھ کر دیا ہمارے جانثاروں نے دشمن کو ذلت آمیز شکست دے کر ستمبر ۱۹۶۵ء کے سترہ دنوں کو ہماری تاریخ کا زندہ جاوید باب بنا دیا۔

عزیز ساتھیو! ستمبر ۱۹۴۸ کے ۱۷ یادگاردنوں کے تصور سے رگ و پے میں آج بھی ایک برق سی دوڑ جاتی ہے کتنے عظیم تھے وہ دن جب ملک کا حر ایک فرد خواہ بچہ ہو یا بوڑھا مرد یا عورت امیریاغریب سب ایک جذبے سے سرشار تھے اور ان کے دل میں ایک ھی خواھش تھی کہ جس طرح ہوسکے دشمن کا مقابلہ بھرپور انداز سے کیا جائے۔

جناب والا! ہندوؤں کے لیے چند گھنٹوں کے اندر اندر لاہور پر قابض ہو جانا نا ممکن نہ تھا اور ان کی فوجی حکمت عملی بھی اسی کے مطابق تھی مگر بھارت کے جرنیل اور سیاسی رہنما اس بات سے نہ آشنا تھے کہ یہ وہ قوم ہے جو اپنے دین اور اپنے ملک کو بچانے کے لیے اپنی جان تک قربان کرنے میں اپنی نجات سمجھتی ہے ان کے لیے شہادت زندہ رہنے سے کئی بہتر  اور اعلی ہے اور مسلمان ہمیشہ اسلام اور ملک کی خاطر موت کو زندگی پر ہمیشہ ترجیح دیتا ہے اور پھر وہی ہوا ہر شخص سر پر کفن باندھے لاالااللہ مہمد رسول کا ورد کرتے ہوئے میدان جنگ میں اترا اور دشمن کو شکست فاش دی۔

میرے ہموطنو! یہ دن ہماری تاریخ کے اوراق پر ہمیشہ چمکتے رہیں گے اور اگر ضرورت پڑی تو انشاء اللہ تعالیٰ ہم تازہ خون سے اس سے بڑھکر چمکدار تاریخ لکھ سکتے ہیں۔

صدر محترم! مسلمان قوم تو ہر ظلم کرنے والے کے خلاف دفاعی دیوار بن جاتی ہے اور ہم نہ صرف اپنے ملک بلکہ پوری دنیا میں جہاں جہاں انسانوں پر ظلم اور ان کے حقوق کو سلب کیا جاتا ہے برسر پیکار ہونے کے لیے تیار ہیں۔