Speech On Zuban in urdu

0

میری مجلس مہمان مکرم و شرکاء محفل! آج میں آپ کے سامنے ایک نہایت اہم اور حساس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں اور یہ موضوع ہے ہماری زبان۔ اُردو برصغیر کی زبانِ رابطۂ عامہ ہے۔ اس کا اُبھار ۱۱ویں صدی عیسوی کے لگ بھگ شروع ہو چکا تھا۔ اُردو ، ہند-یورپی لسانی خاندان کے ہند-ایرانی شاخ کی ایک ہند-آریائی زبان ہے. اِس کا اِرتقاء جنوبی ایشیاء میں سلطنتِ دہلی کے عہد میں ہوا اور مغلیہ سلطنت کے دوران فارسی، عربی اور ترکی کے اثر سے اس کی ترقّی ہوئی۔

اُردو (بولنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے) دُنیا کی تمام زبانوں میں بیسویں نمبر پر ہے. یہ پاکستان کی قومی زبان جبکہ بھارت کی ۲۳ سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے. اُردو کا بعض اوقات ہندی کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے. اُردو اور ہندی میں بُنیادی فرق یہ ہے کہ اُردو نستعلیق رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور عربی و فارسی الفاظ استعمال کرتی ہے. جبکہ ہندی دیوناگری رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور سنسکرت الفاظ زیادہ استعمال کرتی ہے۔

کچھ ماہرینِ لسانیات اُردو اور ہندی کو ایک ہی زبان کی دو معیاری صورتیں گردانتے ہیں تاہم، دوسرے اِن کو معاش اللسانی تفرّقات کی بنیاد پر الگ سمجھتے ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندی ، اُردو سے نکلی۔ داغ دہلوی نے کیا خواب کہا؀

 اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ 
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

قومی زبان کسی بھی قوم اور ملک کے تشخص کی بنیادی اکائی ہوتی ہے۔ اور یہاں اس بنیاد کی مضبوطی کی طرف دھیان دینے کے بجائے یہ قوم خود ہی اس بنیاد کو کھوکھلا کرنے پر تلی ہے۔ ترقی یافتہ مغربی ممالک کی نقالی میں ہماری اپنی پہچان اور تشخص کس حد تک مسخ ہو رہا ہے اس بات کا احساس سوائے چند ایک کے شاید ہی کسی کو ہو۔ دنیا میں اگر اردو زبان کا کوئی مقام باقی رہ گیا ہے تو وہ میر تقی میر، مرزا غالب، داغ دہلوی، شاعرِ مشرق علامہ اقبال، فیض احمد فیض، احمد فراز، اور ایسے ہی لاتعداد شعراء کی کوششوں کا ثمر ہے، جن کے کلام نے ایک عالم کو اپنا دیوانہ بنا رکھا ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ پڑوسی ممالک ہندوستان اور ایران میں کلامِ غالب باقاعدہ پڑھایا جاتا ہے، اقبال کے کلام پر پی ایچ ڈیز کی جاتی ہیں، فیض کے کلام کا روس کی تمام زبانوں میں ترجمہ کر دیا جاتا ہے، لیکن وہ قوم جس کی اپنی زبان ہی اردو ہے، اس کے بچے ان شعراء کے ایک شعر کو بھی خود سے سمجھنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔

کسی شاعر نے کیا خوب کہا؀

 سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں 
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں

کروڑوں کا بجٹ رکھنے والی یونیورسٹیوں کو سرکاری سطح پر پابند کیا جائے کہ وہ اردو کے مضمون کو شامل نصاب کریں اور نام نہاد جدید تعلیمی اداروں کی کارکردگی پر نظر رکھتے ہوئے انہیں اردو زبان کی تعلیم و ترویج کو یقینی بنانے پر مجبور کیا جائے۔ ان اقدامات کے بغیر ہماری قومی زبان جس کی مقبولیت میں پوری دنیا میں اضافہ ہو رہا ہے اپنے گھر میں بے یارو مددگار ہو جائے گی۔ اگر آج اس سلسلے میں مناسب اقدامات سے گریز کیا گیا تو آنے والا وقت اور نسلیں ہم مَیں سے کسی کو معاف نہیں کریں گی،جو اس تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ اختر شرانی کے شعر پر اجازت چاہوں گا؀

مٹ جائیں گے مگر ہم مٹنے نہ دیں گے اس کو 
ہے جان و دل سے پیاری ہم کو زباں ہماری

آپ سب کی سماعتوں کا شکریہ.