Speech On Backbiting In Urdu

0
السلام علیکم و رحمتہ الله و برکاتہ

صاحبِ صدر اور حاضرین!
آج میں آپ سب کے سامنے ایک نہایت سنجیدہ موضوع پر گفتگو کرنا چاہوں گا، ایک ایسا مرض جو نہ صرف ہمارے ارد گرد بسنے والے بہت سے پیاروں بلکہ پورے معاشرے کو تباہ و برباد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

کیا آپ اس مرض کا نام جاننا چاہیں گے؟ “بیک بائٹنگ” جی ہاں اس مرض کا نام *غیبت* ہے۔ جس کی زد سے بڑے ، بوڑھے ، جوان ، نوجوان ، بچے کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی خطرناک چیز ہے جو کسی بھی ہنستے مسکراتے رشتے کو پل بھر میں ختم کر دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

پہلے ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ غیبت دراصل ہے کیا۔ پیٹھ پیچھے کسی کی ایسی بات بیان کرنا جو اسے معلوم ہونے پر بری لگے وہ غیبت کہلاتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ عام طور پر اس گناہ میں عورتیں زیادہ ملوث ہوتی ہیں۔ گھر میں ایک دوسرے سے کسی بات پر ذرا سا اختلاف ہوا اور کسی غیر کے سامنے جا کر دل کھول کے غیبت کی۔ اس نے مجھے ایسا ایسا کہا۔۔۔ یا پھر کسی دو اچھے دوستوں کی برائی کسی ایک کی غیر موجودگی میں کرنا۔۔۔ دیکھ نا اس نے ایسا ایسا کیا۔ اور پھر نتیجہ جو کچھ ہے وہ ظاہر ہے۔۔۔

غیبت کے باعث گھر کے گھر ٹوٹ جاتے ہیں۔ خون کے رشتے تک ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں ہوتے۔ بھائی جیسے رہنے والے دوست ایک دوسرے سے نظریں چرانے لگتے ہیں۔ میری سمجھ نہیں آتا کہ جب غیبت تباہی کے سوا کچھ نہیں لاتی تو لوگ کیوں اس کے عادی بنے ہوئے ہیں؟ آپ نے کبھی غور کیا کہ ہمارے آقائے نامدار جناب محمد ﷺ نے اس کے متعلق کیا کچھ ارشاد فرمایا ہے۔ احادیث میں تو یہاں تک آتا ہے کہ :

“غیبت کرنے والے کی دعا تک قبول نہیں ہوتی” ( تنبیہ الغافلین )
غیبت کرنے والا زنا کار سے بدتر قرار دیا گیا ہے۔ جانتے ہیں کیوں؟ کیوں کہ زنا سے صرف دو لوگ گناہگار ہوتے ہیں اور وہ سچے دل کے ساتھ معافی مانگ لیں تو خدا انھیں معاف بھی فرما دیتا ہے لیکن جس شخص کی غیبت کی گئی ہے جب تک وہ شخص معاف نہیں کرتا تب تک الله بھی معاف نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ صحیح بخاری شریف کی حدیث ہے کہ:

“غیبت کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔”
ایسا شخص نہ صرف دنیا والوں کی نظروں میں بے اعتبار ہوتا ہے بلکہ آخرت میں سخت عذاب کا سزاوار بھی بنتا ہے۔ نہ دین ہاتھ آتا ہے اور نہ دنیا بلکہ دونوں جہاں میں غیبت کرنے والا ملعون ہو کر رہ جاتا ہے۔

ذرا توجہ کا طالب ہوں محترم لوگو!
کسی کی برائی کرنے سے بہتر یہ نہیں کہ ہم اپنے اعمال کی فکر کریں۔ اسلام نے کتنا پیارا قانون دیا ہے کہ اگر تم غیبت روک سکتے ہو تو روک دو اور نہ خود کرو اور نہ سنو اور اگر روک نہیں سکتے تو کم از کم اسے برا جان کر وہاں سے ہٹ جاؤ۔ دیکھیں آپ اصلاح چاہتے ہیں تو کسی کی دل آزاری سے بچیں، کسی کی غیبت کر کے کیا ملے گا؟ بلکہ غیبت کرنے سے تو ہماری نیکی دوسرے کے اعمال میں اور اس کے گناہ غیبت کرنے والے کے نامہ عمال میں لکھے جاتے ہیں۔ پھر سوچیں کہ ہم اتنی محنت و مشقت سے عبادت کرتے ہیں اور ہمارا ثواب کسی اور کو ملے۔۔۔ برا لگے گا نہ؟ تو آئیں آج سے عہد کریں، نہ ہی خود اس بیماری میں ملوث ہوں گے اور نہ کسی اور کو ہونے دیں گے اور اپنے گھر معاشرے اور ملک کو اس خباثت سے پاک کریں گے۔ انشاءاللہ!
شکریہ