Speech on Books In Urdu

0
السلام علیکم صدرِ عالی وقار!!

میرا آج کا زیرِبحث موضوع “کتابیں” ہیں۔ صدر عالی وقار یہ کتابیں ہی ہماری دوست ہوتی ہیں لیکن افسوس کے ساتھ مجھے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ کتابوں سے محبت کی آخری صدی ہے۔

میں روایت کو اپناتے ہوئے کتابوں کے زوال کے لیے سائنسی ترقی کو ہرگز موردِ الزام نہیں ٹھہراؤں گا کیونکہ سائنس نے جو کیا وہ انسانی فوائد کو مدِ نظر رکھ کر کیا۔ یہ ہم انسان ہیں کہ جنہوں نے موبائل اور کمپیوٹر سے فائدے حاصل کرنے کے بجائے اسے اس قدر استعمال کرنا شروع کردیا کہ میرے خیال میں اب یہ چیزیں بھی ہم انسانوں کی پہنچ سے پناہ مانگتی ہوں گی۔

جنابِ عالٰی اور سامعین یہ المیہ ہے کہ ہم اپنی غلطی ماننے کے بجائے دوسروں کو قصوروار ٹھہرانا زیادہ آسان سمجھتے ہیں اور کتابوں کی قدر نہ کرنے پر بھی ذمہ دار ہم موبائل کو ہی ٹھہراتے ہیں۔ جب کہ یہ عجیب بات ہے کیونکہ موبائل کے فوائد سے انکار نہیں لیکن اس کے نقصانات ہم نے خود پیدا کیے ہیں۔

صدر عالی وقار!
یہاں موجود تمام لوگ ہی کتابوں کی اہمیت سے واقف ہوں گے پھر بھی ہم کتابوں سے دور کیوں ہوتے جارہے ہیں؟ اس بات کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ شاید ہم بہت مصروف ہوتے جارہے ہیں اور ہماری مصروفیت محض غیر اہم چیزوں کی وجہ سے بڑھ رہی ہے۔

قرآن مجید جو دنیا کی سب سے بہترین اور اپنے نام کے اعتبار سے سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ ہم لوگ اس قرآن کا حق بھی ادا نہیں کر پاتے۔ سامعین کرام کتابیں ہماری بہترین دوست ہوتی ہیں ، ہماری تنہائی کی ساتھی۔ اکثر ہمارے جذبات کی عکاسی ہمیں ان کتابوں میں موجود لفظوں کی صورت نظر آتی ہے۔ کتابیں پڑھنے سے نہ صرف ہمارے علم میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ ہماری سوچوں میں بھی وسعت پیدا ہوتی ہے۔ ہمیں کم سے کم روزانہ ایک گھنٹہ اپنے مطالعے کی نظر کرنا چاہیے۔ پڑھنے کے لیے ہمیں ادبی اور سائنسی علوم کے موضوعات پر مشتمل کتابوں کا چناؤ کرنا چاہیے۔

صدر عالی وقار!
میرا ماننا ہے کہ جیسے انسان کی پہچان اس کے دوستوں سے ہوتی ہے ویسے ہی ہمای پہچان ہماری منتخب کردہ کتابوں سے بھی ہوتی ہے کیونکہ کتابیں بھی ہماری دوست ہوتی ہیں۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ وقت کو ضائع کرنے والی کتابوں کے بجائے معلوماتی کتابوں کو اپنے مطالعہ کا حصہ بنائیں اور ان سے فائدہ اٹھائیں۔

جناب عالی اور سامعین کرام میری یہ تمام باتیں آزمودہ ہیں۔ کتابیں پڑھنے سے میری طبیعت میں واضح فرق نمایاں ہوا ہے۔ مجھ پر سوچ کے وسیع در وا ہوئے ہیں۔ میری طبیعت میں سنجیدگی نے جگہ پائی ہے، میری سوچ کو وسعت ملی اور مجھے بہت سی معلومات بھی حاصل ہوئی۔ میں چاہوں گا کہ ہمارے نوجوانوں میں کتب بینی کی عادت عام ہوجائے اور ہمارا ملک ترقی یافتہ ممالک میں شمار کیا جائے۔ اگر میری باتیں یہاں موجود لوگوں میں سے کسی ایک بھی شخص کو متاثر کرسکیں تو میرا مقصد پورا ہوجائے گا۔
شکریہ