Speech On Ustad ka Ehtram in urdu

0

جناب صدر! معزز سامعین السلام علیکم!
آج میری تقریر کا عنوان استاد کا احترم ہے۔

شیخِ مکتب ہے اک عمارت گر
جس کی صنعت ہے روحِ انسانی

جنابِ صدر !
5؍اکتوبر کا دن یومِ اساتذہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد اساتذہ کے کردار کو اُجاگر کرنا اور طلباء کو اساتذہ کا احترام اور اطاعت سکھانا ہے۔ یہ اہم دن 1994ء سے اقوام متحدہ کے تحت منایا جاتا ہے۔
ایک وقت تھا کہ شاگرد کا تمام انحصار اپنے استاد پر ہی ہوتا تھا اور استاد بھی اپنے شاگرد کے ساتھ ایک مثالی تعلق رکھتا تھا۔ وہ جہاں اپنے شاگرد کو نصاب کی کتب پڑھاتا تھا وہاں وہ اُسے اپنی حرکات و سکنات اور دعاؤں سے ادب و احترام کا خاموش درد بھی دے رہا ہوتا تھا۔

اساتذہ انسانیت کا ستون بھی ہیں اور بنیاد بھی ، یہی قوم کے اصل معمار ہیں۔ نوجوانوں کی سیرت کو سنوارنے، انہیں مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے اور ان کی کردار سازی میں اہم ترین فریضہ سر انجام دیتے آئے ہیں۔ اساتذہ نے اپنے علم کے ذریعے عقل کو علم سے روشن کرنے کا ہنر سکھایا، اور اپنی انتھک محنت سے نوجوانوں کو محقق، ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان، سیاستدان اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کارہائے منصبی پر فائز کرتے چلے آئے ہیں۔
حضرت علی ؓ کا فرمان ہے کہ:

’جس شخص سے میں نے ایک لفظ بھی پڑھا میں اس کا غلام ہوں۔ چاہے وہ مجھے بیچ دے یا آزاد کردے‘‘

سامعین کرام!
اسلام میں علم کی بڑی اہمیت اور فضیلت ہے۔ یہی وہ ذریعہ ہے جس سے انسان پہلے اپنے آپ کو پہچانتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرتا ہے۔ اسلام میں علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضور ﷺ پر جو پہلی وحی نازل ہوئی تھی اس میں پہلا حکم علم کے بارے میں تھا۔ علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں حضور ﷺ کو یہ دعا سکھائی گئی
“رب زدنی علما”
“اے میرے پروردگار میرے علم میں اضافہ فرما”

اور بحیثیت نبی آپ ﷺ کے وظائف میں سے ہے
وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ ُزَكِّيْهِمْ،

اورآپ ﷺان کو کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے رہیں اور ان کا تزکیہ وتربیت کرتے رہیں آپ ﷺ کا منصب معلم کا بھی ہے بلکہ آپ ﷺ نے اپنی بعثت کا مقصد ہی تعلیم قرار دیا: “انا بعثت معلم” ، بیشک میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا: “طلب العلم فریضۃ علیٰ کل مسلم” یعنی علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے
اسی لیے تو کہتے ہیں کہ ‘باادب بانصیب بےادب بےنصیب’
اور یہی زندگی کا ماحصل ہے۔

علم کی قدر اُس وقت ممکن ہے جب معاشرے میں استاد کو عزت دی جائیگی اور ہمیشہ وہ طالب علم ہی کامیاب ہوتے ہیں جو استاد کا احترام کرتے ان کی عزت کرتے ہیں۔ ارشادِ گرامی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ اجازت چاہوں گا

’’استاد کی حیثیت روحانی باپ کی سی ہے ‘‘
ولسلام! شکریہ