Speech On Dehshat Gardi In Urdu

0

دہشت گردی پر ایک تقریر

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
آج کا ہمارا موضوع ہے *دہشت گردی* اسی پر ایک شعر عرض ہے ؀

جو لوگ ہمیں دہشت گرد کہتے ہیں
ہم تو ان کی دہشت گردی کی گرد کو بھی نہیں پہنچے

میری پیاری بہنو!
اسلام جو تمام انسانوں کے لیے رحمت کا مذہب ہے۔ ہمارا مذہب اسلام ظلم و جبر، فتنہ فساد اور قتل و غارت کو بد ترین گناہ میں شمار کرتا ہے۔ دین محمدی ہمارے لئے ہدایت کا سرچشمہ ہے جو ہمیں امن کا پیغام دیتا ہے۔ اس کے باوجود اگر ہم اپنے اطراف پر طائرانہ نظر ڈالیں تو ہر جانب دہشت گردی کا بازار گرم ہے۔

یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ قدیم زمانے سے یہ سلسلہ جاری ہے کہ جب کسی نے حق کی آواز کو بلند کیا تو حق کی مخالفت کرنے والے باطل لوگوں نے ہر طرف دہشتگردی کے بازار کو گرم کیا ہے۔ اسی طرح جب حضرت موسی علیہ الصلاۃ والسلام نے تمام لوگوں کو اللہ کی عبادت کی جانب بلایا تو فرعون نے ہزاروں جادوگروں کو قتل کرادیا۔ لیکن خدا کا کرشمہ تو دیکھیے دین اور بھی تیزی سے پھیلنے لگا۔ فرعون کی قوم کے ایک نہیں بلکہ اکثر لوگ ایمان کی دولت سے مالا مال ہونے لگے۔ یہی نہیں بلکہ قرآن کریم نے سورہ مومن میں ایک فرعونی کا مکمل تذکرہ کیا ہے۔ یہ واقعہ بہت ہی طویل ہے لیکن اس کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا یہاں پر درج کیا جاتا ہے۔

وہ فرعونی دربار میں ایمان لے آیا اور اس نے اپنے ایمان کو پوشیدہ رکھا۔ ایمان کو پوشیدہ رکھنے کے باوجود اس فرعونی نے اپنی قوم کو تبلیغ کی کہ تم پیغمبر کی مخالفت کیوں کرتے ہو؟کچھ روز بعد فرعون کے دربار میں مشورہ ہوا جس کی قرآن کریم نے کچھ اس طرح عکاسی کی ہے۔ ارشاد ربانی ہے* َوَقالَ الْمَلَأُُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰی وَقَوْمَہٗ لِیُفْسِدوُ فِیْ الْاَر‌‌‌‌ْضِ وَیَذَرَکَ وآلِہَتَک⭕

ترجمہ
” فرعون کو درباریوں نے کہا کہ تم نے موسی اور اس کی قوم کو آزاد چھوڑ رکھا ہے تاکہ وہ زمین میں فساد پھیلائیں اور تیرے معبودوں کو چھوڑ دیں۔”

*فساد* لفظ سے ظاہر ہوا کہ جہاں فساد ہوتا ہے وہیں پر *دہشت گردی* بھی جنم لیتی ہے کیوں کہ وہ دہشت گرد اپنے قول و فعل کو دنیا کی اصلاح کا ضامن ٹھہراتے ہیں۔ دہشت گرد کو یہ شعور نہیں ہوتا کہ جن معصوم اور بے گناہ کی وہ جان لے رہے ہیں یہ انتہائی سنگین جرم ہے۔ یہاں تک کہ قرآن کریم میں بھی دہشت گردی کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ ارشاد باری ہے * منْ قتلَ مؤمناً متعمداً فجزاءہٗ جہنّمْ🔹

ترجمہ۔ “جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کیا اس کی سزا جہنم ہے۔”

اس سے صاف ظاہر ہے کہ اسلام کی نظر میں بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے برابر ہے۔ ذرا سوچئیے وہ اسلام جو ایک انسان کے ناحق قتل کو تمام انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے اس سے پرامن مذہب کونسا ہو سکتا ہے۔

اسی طرح ہمارے آقاۓ نامدار تاجدار بطحاء محمد عربیﷺ جنگ میں روانہ فرماتے تو تاکید کرتے ہوئے یہ بھی ارشاد فرماتے کوئی فصل بھی نہ اجاڑے اور جانور بھی جو موذی ہےانہیں ایک ہی ضرب میں مارنے کی کوشش کریں کہ وہ سسک سسک کر نہ مرے۔ نہ ہی اس کی صورت بگاڑو، نہ ہی ان کے اعضا توڑو۔

ذرا سوچیۓ وہ رسول امین جو جانوروں اور فصلوں کے لیے یہ تاکید فرماتے تھے تو آج ہم امت محمدیہ نے کس دین کو اپنا لیا ہے؟ اور کس شریعت کو نافذ کر لیا ہے؟ اس شریعت کے طریقہ کار کو نافذ کر لیا ہے جس طریقہ کی ہماری شریعت بالکل اجازت نہیں دیتی۔ کیا ہمارا دین معصوم اور بے گناہ پر ظلم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ حالانکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عربوں کی اس جاہلیت اور دہشت گردی،ظلم و جبر کو سختی سے ختم کروایا تھا۔

اپنی بات کو طول نہ دیتے ہوئے پھر سے ہم حضرت موسی اور فرعون کے واقعہ کی طرف رخ کرتے ہیں کہ فرعون نے اپنی برائی پر لیبل لگانے کے لیے کہا کہ اب میں ان فسادیوں کو برداشت نہیں کروں گا بہت دہشت گردی ہوگئ کیا ہزاروں معصوم بچوں کو قتل کرا دینا دہشت گردی میں شامل نہیں تھا۔ اس کے باوجود اس نے اہل حق کو فسادی اور دہشت گرد قرار دیا۔

معلوم ہوا کہ ہر ظالم حاکم اپنی برائی کا دفاع کرنے کے لیے معصوم اور بے گناہ لوگوں کو دہشت اور فساد کا نشانہ یا سبب بناتے ہیں۔

آئے دن بڑے واقعات اور حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر بچہ چوری کا فعل، حکومت نے اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا یہ دہشت گردی نہیں تو اور کیا ہے۔ جس پر کوئی آواز اٹھانے والا نہیں۔ افسوس ہے آج کے مسلمان پر۔ آج کا مسلمان زندہ ہونے کے باوجود اپنے برے اقوال و افعال کے سبب فوت ہو چکاہے۔ اسی پر کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔؀

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا

اس کے علاوہ ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن میں بھی ارشاد باری ہے *انَّ الّلہَ لاَ یغیّرُ حتّٰی یُغیّرو ما بانفسہم و اذا ارادَ الّلہُ بقوم سویٔا فلا مردَّ لہُ وما لہم من دونہ من وّال*

ترجمہ۔ “بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے اور جب اللہ کسی قوم کو برے دن دکھانے کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔”

* اس لئے ہم تمام کو اشعار کے پہلےمصرع **ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں* میں ڈہلنےکی اشّد ضرورت ہے اگرہم اور ہماری قوم اب بھی ایک ساتھ نہ ہوئی اور ابھی بھی ہماری آنکھیں نہ کھلیں تو وہ دن دورنہیں کہ خدا کی جانب سے بھی کوئی اور موقع نہ ملے۔
*
اسلیۓ ہم تمام کو ایک ساتھ مل کر ایسے دہشت گردوں کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ اگر ہم ابھی بھی ایک ساتھ نہ ہوئے اور اسی طرح منتشر رہے تو یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ اشعار کا دوسرا مصرع *ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے* شاید ہمارے لیۓ ہی بنا ہے۔

پیاری ساتھیو۔ جس دنیا کو انداز حکمرانی اسلام اور مسلمانوں نے سکھائے آج وہی اسلام اور مسلمانوں کو غیر مہذب اجڑ، شدت پسند اور دہشت گرد کہ رہے ہیں۔ اب غیر مسلم یہ سمجھ رہے ہیں کہ علم و عرفان انہی کی میراث ہے حالانکہ اسلام کی خوبیاں اس کے نظام کو حقیقت پسند غیر مسلم افراد مانتے اور متاثر بھی ہوتے ہیں۔ آخرمیں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں *دہشت گردی* جیسے فعل سے محفوظ رکھے اور ساتھ ہی ہم تمام کو اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آخر میں اس شعر سے اپنے کلام کا اختتام کرتی ہوں؀

  • ✍️ جس دور پہ نازاں تھی دنیا
  • اب ہم وہ زمانہ بھول گۓ
  • اوروں کو جگانا یاد رہا
  • خود ہوش میں آنابھول گئے
  • منہ دیکھ لیا آئینے میں
  • پر داغ نہ دیکھا سینے میں
  • جی ایسا لگایا جینے میں
  • مرنے کو ہم سب بھول گئے