Advertisement
Advertisement

السلام علیکم!
محترم صدر مقرر سامعین اکرام!
آج کی میری تقریر کا عنوان ایمانداری ہے۔

Advertisement

اللہ رب العزت اور رسول کریمﷺ اور آخرت پر ایمان رکھنے والا شخص مومن ہے اور مومن کسی کی امانت میں خیانت نہیں کر سکتا کیونکہ امانت داری پر عمل بھی ایمان کا حصہ ہے۔ نبی کریم ﷺ ظاہری اعلان نبوت سے پہلے ہی صادق اور امین کے بابرکت لقب سے جانے پہچانے جاتے تھے اور آج بھی وہ لقب مسجد نبوی شریف میں مواجۂ رسول اللہﷺ کی جالیوں میں لکھا ہوا ہے۔مسجد نبوی شریف کی زیارت موقع پر آپ جالیوں کو بغور دیکھ سکتے ہیں جن میں آپﷺ کا لقب مبارک ’’ صادق الامین‘‘ لکھا ہوا ہے۔

آپﷺ نے ارشاد فرمایا :
’’جس کے اندر امانت نہیں اس کے اندر ایمان نہیں۔‘‘(مسند احمد)۔

Advertisement

عزیز سامعین!!
آپﷺ کے اوصاف میں یہ شامل تھا کہ آپ ایماندار تھے اور آپﷺ نے اس عمل کی اتنی تاکید کی گویا کہ ایمان کا لازمی تقاضا ہے کہ آدمی امین ہو، امانت میں خیانت نہ کرتا ہو۔ عربی زبان میں ’’امانت ‘‘کے معنیٰ یہ ہیں کہ کسی شخص پر کسی معاملے میں بھروسہ کرنا۔
افسوس کی بات ہے کہ زیادہ‌ تر لوگ اپنی ظاہری شکل‌و صورت کو نکھارنے کے لیے تو بہت کچھ کرتے ہیں مگر اپنی سیرت کو سنوارنے کے لیے کچھ نہیں کرتے۔‏ اِس وجہ سے وہ اپنے مطلب کے لیے تھوڑی بہت بےایمانی کرنے کو غلط نہیں سمجھتے۔

Advertisement

ساتھیو!
خدا کے کلام میں بتایا گیا ہے کہ ہم فطری طور پر غلط کام کرنے کی طرف مائل ہیں۔‏ ”‏اِنسان کے دل کا خیال لڑکپن سے بُرا ہے۔‏“‏
لہٰذا ایمان‌ داری سے کام لینے کے لیے ہمیں اپنی بُری خواہشوں سے لڑنا پڑتا ہے۔‏

ایمانداری کو اختیار کرکے انسان ایک محفوظ راستے کا انتخاب کرتا ھے۔ ایک ایماندار شخص کی ہمیشہ قدر کی جاتی ھے۔ اسے قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ھے۔ ارد گرد کے لوگ اسے پسند کرتے ہیں۔ لوگ اپنی مشکلات اور پریشانیاں اسکے ساتھ بانٹتے ہیں کیونکہ ایماندار شخص قابل اعتبار ہوتا ہے۔

ہم ایک ایسی دُنیا میں رہ رہے ہیں جس کے اخلا‌قی معیار دن بہ‌ دن گِرتے جا رہے ہیں اور جو ہمیں اپنے رنگ میں رنگنے کی پوری کوشش کرتی ہے۔‏ اِس لیے بےایمانی کے خلا‌ف جنگ جیتنے کے لیے صرف قرآن مجید فرقان حمید کا علم حاصل کرنا ہی جیت کا سبب ہے۔‏ ہمیں اِس سلسلے میں خدا تعالیٰ سے دُعا بھی کرنی چاہیے‏ یوں ہمیں صحیح کام کرنے کی ہمت ملے گی اور ہم ہر بات میں ایمان‌داری سے کام لینے کے عزم پر قائم رہیں گے۔‏

Advertisement

جناب والا!
حقیقت یہ ہے کہ تمام تر برائی اور خرابی ہمارے اپنے دل اور ذہن کے اندر ہوتی ہے جس کا الزام ہم دوسروں کے سر لگا کر جھوٹی تسکین و تسلی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور چونکہ ہم خود بُرے ہوتے ہیں اسلئے دوسروں سے بھی ایسی ہی توقع رکھتے ہیں اور جب اعمال اور توقعات ہی بری ہوں تو نتائج کیسے اچھے نکل سکتے ہیں؟
ہمیں پہلے اپنے ضمیر سے، اپنے اللہ سے، اپنے رسول اللہﷺ کے ساتھ ایماندار ہونا ہوگا جب ہی یہ معاشرہ، یہ نظام سب راہ راست پر آئے گا۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔۔
آمین ثم آمین

Advertisement